وزیر اعظم پاکستان کا اقوام متحدہ سے تازہ ترین خطاب نہایت ہی جامع اور معنی خیز تھا۔ اس ملک کے عوام کے احساسات و جذبات کی انہوں نے اپنی تقریر میں نہایت ہی موثر انداز میں ترجمانی کی شاید ہی کوئی ایسا مسئلہ رہ گیاہو کہ جو پاکستان کی سلامتی اور مستقبل پر براے راست اثر انداز ہوتا ہو اور اس کا انہوں نے اپنی تقریر میں ذکر نہ کیا ہو۔ بین الاقوامی اور قومی امور پر اب تک ان کی تقریروں میں شاید یہ سب سے بہترین تقریر تھی اب ضرورت اس امر کی ہے کہ مختلف ممالک میں ہمارے جو پریس اتاشی تعینات ہیں وہ اس تقریر کے مندرجات کو ان ممالک کے میڈیا کے توسط سے موثر انداز میں ان ممالک میں آگے پھیلائیں کتنا اچھا ہوتا اگر ہماری اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈر بھی انہیں خطوط پر قومی اسمبلی میں قراردادیں پاس کراتے اور قومی اور بین الاقوامی میڈیا میں اپنے انٹرویوز کے ذریعے ان نکات کو مزید اجاگر کرتے۔حکومت سے ان کی سیاسی دشمنی اپنی جگہ پر جن معاملات کا ذکر وزیر اعظم صاحب نے اپنی تقریر میں کیا ہے وہ تمام قومی نوعیت کے تھے اور ان پر عمل کرنے یا نہ کرنے کی وجہ سے جو اچھے اور برے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ان کا اس ملک کی سلامتی کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے کہ جس کی حفاظت اس ملک کے ہر باسی پر لازم ہے ادھر اگر ہم اپنے پرانے حریف بھارت پر اگر ایک نظر ڈالیں تو لگ یہ رہا ہے کہ وہ آج مکافات عمل کا شکار ہے افغانستان میں اس کا پتا کٹ چکا ہے گو کہ وہ حد درجے کوشاں ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے ایک مرتبہ پھر افغانستان کے ایوان اقتدار میں وہ اس قسم کی رسائی حاصل کر سکے جو کہ ماضی میں اسے حاصل تھی یہ غالبا ًتاریخ میں پہلی مرتبہ ہے کہ افغانستان سے وہ راندہ درگاہ ہوا ہے اس کی کئی ریاستیں کہ جو جغرافیائی لحاظ سے میانمار کے ارد گرد واقع ہیں آج سیاسی انتشار کا شکار نظر آتی ہیں اور وہاں خودمختاری کی تحریکیں چل رہی ہیں امریکہ کی گود میں بیٹھ کر اس نے چین کے ساتھ بہت بڑی دشمنی مول لے لی ہے کہ جسے شاید وہ پال نہ سکے چین کے ساتھ اس کے پہلے سے ہی سرحدی تنازعات موجود تھے جو اب نہایت ہی گھمبیر صورت اختیار کر چکے ہیں اور چینی فوجی ان علاقوں میں کئی سو میل تک اندر گھس آئے ہیں کہ جنہیں بھارت اپنی ملکیت تصور کرتا ہے اور جن پر چین کا دعوی ہے کہ یہ اس کے علاقے ہیں بھارت کے تلوں میں اتنا تیل نہیں کہ وہ ان علاقوں سے چینی افواج کو بیدخل کر سکے بھارت کا وزیر خارجہ جے شنکر بے یارومددگار دنیا کے مختلف ممالک کے چکر لگا رہا ہے تا کہ بھارت کے موقف کیلئے بین الاقوامی حمایت حاصل کی جاسکے پر ابھی تک اسے خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ بھارت کی وزارت خارجہ نے یہ بھی بہت کوشش کی ہے کہ امریکہ نے حال ہی میں برطانیہ اور آسٹریلیا کے ساتھ مل کر جو عسکری اتحاد تشکیل دیاہے اس میں بھارت کو بھی شامل کیا جائے پر اپنے اس مقصد میں ابھی تک اسے کامیابی حاصل نہیں ہوئی بھارت نے امریکہ کی ٹوکری میں اپنے تمام انڈے رکھ کر ایک لحاظ سے سے اپنے پرانے دوست ملک روس کو بھی حد درجے ناراض کیا ہے بھارت کے دانشور جواہر لال نہرو کے دور حکومت کو اب یاد کرتے ہیں کہ جنہوں نے کمال چالاکی سے ایسی حکمت عملی بنا رکھی تھی کہ بیک وقت اپنے دور حکومت میں انہوں نے مشرق کے ساتھ بھی اچھے روابط رکھے ہوئے تھے اور مغرب کے ساتھ بھی ان کا رویہ دوستانہ تھا نریندرا مودی نے تو حد ہی کر دی ان کی وزارت خارجہ کے بزر جمہروں نے انہیں یہ نہ سمجھایا کہ آج روس اور چین یک جان دو قالب ہو چکے ہیں اور اگر بھارت نے امریکہ نواز پالیسی اختیار کی تو وہ اس خطے میں ان دو عظیم ممالک کی دشمنی خوامخواہ مول لے گا جس سے بھارت کو سخت نقصان ہو سکتا ہے۔