بھارت کا المیہ

 مودی کا بلڈ پریشر تو اس وقت یقینا اونچا ہوا ہوگا جب امریکی صدر بائیڈن نے اس کے ساتھ اپنی حالیہ ملاقات کے دوران اسے مہا تما گاندھی کے عدم تشدد کا فلسفہ یاد کرایا۔ مودی کو گاندھی کا سبق یاد کرا کر بلا شبہ بائیڈن نے اس کے منہ پر ایک زناٹے دار طمانچہ مارا ہے کیونکہ گاندھی کو قتل کرنے والے جو لوگ تھے وہ اسی فلسفے کے پر چارک تھے کہ جس پر آج کل مودی اور اس کی پارٹی عمل پیرا ہے۔ گاندھی جی کا فلسفہ تو اس فلسفے کی ضد ہے کہ جس پر مودی کاربند ہے۔ مودی نے تو کبھی خواب میں بھی یہ نہ سوچا ہو گا کہ اسے یہ دن بھی دیکھنا پڑے گا کہ جن پر تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے ہیں مودی کا حالیہ دورہ امریکہ ہر لحاظ سے ناکام رہا ہے۔ اس دورے کے دوران اسے امریکہ سے کیا ملا ہے صرف یہ وعدہ کہ ہر سال تعلیم و تربیت کیلئے بھارت کے طلبا و طالبات کو 25سکالر شپز فراہم کیے جائیں گے۔وطن واپسی پر مودی سے اس کے ہم وطن یقینا اس سے یہ پوچھیں گے کہ امریکہ کے کہنے پر بھارت نے چین جیسی سپر پاور سے پنگا تو لے لیا ہے پر کیا امریکا چین کے ساتھ اس کے سرحدی تنازعات میں اس کی کھل کر حمایت بھی کرے گا یا نہیں۔لگ یہ رہا ہے کہ امریکہ اپنے حریفوں کے خلاف آئندہ غیر روایتی جنگوں میں حصہ لے گا جیسا کہ ففتھ جنریشن وار فیئر یا سائبر وار فیر۔ وہ اب روایتی قسم کی جنگوں میں امریکہ کو اُلجھانے سے گریز کرے گا۔ خدا لگتی یہ ہے کہ اگر آج بھارت میں ہندوستان کی خالق جماعت کانگریس مضبوط ہوتی تو بھارت مودی جیسے انتہا پسندوں کے ہاتھوں کبھی نہ چڑھا ہوتا۔ بھارت کی انتہا پسندی کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیجئے کہ جس شخص کے ہاتھوں گاندھی جی کا قتل ہوا آج بھارتی جنتا پارٹی اس کو قومی ہیرو کا خطاب دینے والی ہے اور یہ سوچ رہی ہے کہ اس کے مجسمے بنا کر کیوں نہ بھارت کے اہم شہروں میں مرکزی مقامات پر نصب کر دئے جائیں۔ گاندھی جی کو قتل کرنے والے کی دانست میں گاندھی جی بھارت کے مسلمانوں کے ساتھ نرم سلوک کے روا دار تھے اور آر ایس ایس جس کی کوکھ سے بھارتی جنتا پارٹی نے جنم لیا ہے مسلمانوں کے وجود کو سرے سے ہی برداشت نہیں کرتی اور وہ کھلم کھلا یہ پرچار کرتی آ رہی ہے کہ مسلمانوں نے اگر بھارت میں رہنا ہے تو وہ ہندو مت اختیار کریں ورنہ پاکستان چلے جائیں۔ اس سیاسی پارٹی نے آج بھارت کو انتہا پسندی میں دھکیل دیا ہے جس نے بھارت کا وہ سیکولر امیج ختم کر دیا ہے جو کانگریس پارٹی نے دنیا میں بنانے کی کوشش کی تھی۔کئی تاریخ دانوں کا البتہ یہ خیال ہے کہ اندرون خانہ گاندھی جی بھی مسلمانوں کیلئے اپنے دل میں کوئی نرم گوشہ نہیں رکھتے تھے پر ان کی حکمت عملی یہ تھی کی مسلمانوں کو میٹھی گولی سے مارو وہ بغل میں چھری اور منہ میں رام رام کے قائل تھے۔ یہ بات بھی کتنی عجیب ہے کہ بھارتی حکومت کو افغانستان کے اندر رہنے والی اقلیتوں کا تو بڑا خیال ہے پر اپنے ملک کے اندر وہ خود اقلیتوں کے ساتھ جو رویہ رکھا ہے اور ان کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے وہ دنیا دیکھ رہی ہے امریکہ نے بھارت کی کوشش بسیار کے بعد بھی اسے اس عسکری معاہدے کا حصہ نہیں بنایا جو اس نے حال ہی میں آسٹریلیا اور برطانیہ کے ساتھ طے کیا ہے لگ یہ رہاہے کہ ماضی کے برعکس امریکہ اب ہر ملک کے ساتھ زمینی حقائق کو مد نظر رکھ کر اپنی سیاسی اور معاشی ضروریات کے مطابق علیحدہ علیحدہ معاہدے کیا کرے گا اور نیٹو جیسے لمبے چوڑے معاہدوں میں وہ اپنے آ پ کو نہیں پھنسائے گا۔ اگر آپ ماضی پر نظر ڈالیں تو بھارت کے چھوٹے چھوٹے ہمسایہ ممالک کبھی بھی اس سے خوش کسی دور میں بھی نہیں رہے پر جس شدت کی خفگی ان میں آج کل موجود ہے اتنی ماضی میں کبھی بھی دیکھنے میں نہیں آ ئی۔ بھارت کے اندر کئی ریاستوں میں انتشار کی صورت حال ہے اس ضمن میں تازہ ترین مثال آسام کی دی جا سکتی ہے۔ بنگلہ دیش سے آکر آباد ہونے والے مسلمانوں کے ساتھ بھارتی انتہا پسند اسام میں ناروا سلوک کر رہے ہیں۔ انہوں نے وہاں کے مسلمانوں کا جینا حرام کر دیا ہے۔