اہم عالمی اور قومی امور 

بھارت کے وزیراعظم نریندرا مودی امریکہ کی حالیہ یاترا کے بعد خالی ہاتھ اور نا مراد واپس لوٹے ہیں صدر بائیڈن نے انہیں صرف باتوں باتوں سے ہی ٹرخا دیا انہوں نے صرف کورونا وائرس کی ویکسین کی بھارت کو فراہمی کی بات کی کہ جو امریکہ ساری دنیا کو دینے کی ویسے ہی سوچ رہا ہے اور یا پھر بھارتی طلباء و طالبات کو تعلیمی وظائف کا وعدہ سردیاں بھارت کے سر پر آن پہنچی ہیں اور یہ وہ موسم ہے کہ جب بھارت اور چین کی سرحدی جھڑپیں ہوا کرتی ہیں۔حیرت کی بات ہے کہ مودی اور بائیڈن کی حالیہ بات چیت کے بعد چین اور بھارت کے باہمی تعلقات کے ضمن میں بائیڈن اور مودی کی بات چیت میں بھارت اور چین کی ممکنہ جنگ کی صورت میں امریکہ کی طرف سے بھارت کی امداد کرنے کا ذکر تک اس اعلامیہ میں نہیں جو ان دو رہنماؤں کی گفت و شنید کے بعد جاری ہوا۔مودی ضرور یہ سوچتے ہوں گے کہ نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے۔ امریکہ کی دوستی میں چین اور روس بھی ہاتھ سے نکلا اور افغانستان بھی ابھی تک گھاس نہیں ڈال رہا۔ ادھر فرانس چونکہ امریکہ سے اس بات پر ناراض ہے کہ اس نے آسٹریلیا اور برطانیہ کو تو اپنے ساتھ ایک نئے عسکری معاہدے میں شامل کر لیاہے پر فرانس کو نظر انداز کر دیا ہے اس لئے فرانس کے صدر اقوام متحدہ کے رواں اجلاس میں شرکت کرنے نہیں جا رہے اور نہ ہی ان کا وزیر خارجہ نیویارک جا رہا ہے‘امریکہ کو اس بات پر بھی ایک جھٹکا لگا ہے کہ ترکی جو کہ نیٹو کا ایک رکن بھی ہے اس نے روس سے جدید ترین اسلحہ خریدنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے لئے آئندہ چند گھنٹوں میں ترکی کے صدر ماسکو جا رہے ہیں‘ ترکی کا روس کی طرف جھکاؤ امریکہ کو ایک آ نکھ نہیں بھا رہا‘روس کے دورے کے دوران وہ یقینا صدر پیوٹن سے شام کے بارے میں بھی مذاکرات کریں گے‘یاد رہے کہ شام اور ترکی کے صدر کیآپس میں بعض امور پر نہیں چھنتی‘ایک عرصہ کے بعد پیوٹن کی شکل میں روس کو ایک فعال اور متحرک قسم کا لیڈر نصیب ہواہے جو صدق دل سے اپنے ملک کی نشاط ثانیہ چاہتا ہے اور اس ضمن میں اب تک انہوں نے یورپ‘افریقہ اور ایشیاء میں سیاسی محاذ پر خاطر خواہ کامیابی حاصل کی ہے‘ 1980ء کے عشرے میں جب امریکہ نے ایک سازش کے ذریعے سابقہ سوویت یونین کے حصے بخرے کئے تو کوئی اس وقت سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وسطی ایشیاء کے جو ملک سوویت یونین سے جدا کر دیئے گئے ہیں وہ کبھی دوبارہ روس کے ساتھ شیرو شکر بھی ہو سکتے ہیں پر صدر پیوٹن نے ایسی حکمت عملی اپنائی ہے کہ ان میں سے بیشتر ممالک اب روس کے گن گاتے ہیں اور ان میں سے ایک ملک کے سربراہ نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ انہیں کوئی اعتراض نہیں اگر ان کا ملک دوبارہ روس کے ساتھ مل جائے جرمنی میں حکمران کو چانسلر کہا جاتا ہے جرمنی میں گزشتہ 16 برسوں سے اینجلا مرکل بر سر اقتدار تھیں اگلے روز حالیہ الیکشن کے بعد اب وہ جرمنی کی چانسلر تو نہیں رہیں پر اپنی اعلیٰ قائدانہ صلاحیتوں کی وجہ سے انہوں نے جرمنی کی سیاست پر ایک اچھی چھاپ چھوڑی ہے، جرمنی کی تاریخ میں ان کا نام سنہری حروف میں لکھا جائے گا،اقتدار میں رہ کر ہر قسم کی مالی کشش اور آ لودگی سے اپنے دامن کو بچا کر رکھنا ایک بہت بڑا کام ہے اور اس میں اینجلا مرکل کافی حد تک کامیاب ثابت رہی ہیں۔جہاں تک اس ملک کے سیاست کا تعلق ہے وہ اسی بے ڈھنگی چال پر چل رہی ہے کہ جس کی وجہ سے اس ملک میں جمہوریت صحیح معنوں میں ابھی تک پنپ نہیں سکی۔