ہر تصویر کے دو پہلو ہوتے ہیں ایک منفی تو دوسرا مثبت۔ ایک زمانے سے ہم یہ سنتے اور پڑھتے آ رہے ہیں کہ جنگوں سے اگر ایک طرف ہزاروں لوگ ہلاک اور معذورہو جاتے ہیں تو دوسری جانب ان سے ان فرموں اور کمپنیوں کی چاندی ہو جاتی ہے کہ جو ان جنگوں کو ممکن بنانے کیلئے گولہ بارود تیار کرتی ہیں یا اسلحہ سازی کرتی ہیں۔ اسلحہ سازی کرنے والی کمپنیوں اور گولہ بارود بنانے والے کارخانوں کا شمار دنیا کے منافع بخش تجارتی اداروں میں ہوتاہے اور ان تجارتی اداروں نے ایک مافیا کی سی شکل اختیار کر لی ہے کہ جن کے نمائندے اسلحہ ساز ممالک کے ایوان اقتدار میں براجمان ارباب اختیار کے فیصلوں پر بھی اثر اندازہونے کی سکت رکھتے ہیں اس مافیا کی تمام آمدنی کا دار و مدار دنیا میں مختلف مقامات پر جنگ و جدل پر منحصر ہے دنیا میں جتنی زیادہ جنگیں ہوں گی تو جنگ کرنے والے ممالک بہ امر مجبوری خواہ مخوا ان ملکوں سے اسلحہ خریدیں گے کہ جو اسلحہ ساز ملک ہوں گے اور اس طرح ان کی بزنس میں دن دگنی اور رات چوگنی ترقی ہوتی رہے گی دنیا کے مختلف ممالک میں ماضی قریب میں لڑی جانے والی جنگوں میں غالباً 2001سے لے کر 2021 تک افغانستان میں طالبان اور نیٹو کی افواج کے درمیان لڑی جانے والی جنگ سب سے طویل جنگ تھی۔ یہ جنگ تقریبا دو دہائیوں پر محیط تھی اس افغان جنگ سے کئی امریکی کمپنیاں ارب پتی ہو گئی ہیں۔ ان سے مینیجمنٹ‘ کھانا‘ٹرانسپورٹ اور دیگر لاجسٹکل سپورٹ کے کام بھی لیے گئے یہاں تک کہ حامد کرزئی کی سکیورٹی بھی اسی قسم کی ایک سیکورٹی کمپنی کے حوالے تھی اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ سابقہ افغان حکمرانوں کو اپنے ملک کے سیکورٹی اداروں پر اتنا اعتبار نہیں تھا کہ جتنا غیر ملکی سیکورٹی اداروں پر تھا اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اس قسم کے حکمرانوں کی زندگیاں کس قدر غیر ملکی حکومتوں کے رحم وکرم پر ہوتی ہیں ایک مستند سروے کے مطابق امریکہ اور دیگر ممالک کی سو سے زیادہ کمپنیوں کو پینٹاگون کی طرف سے ٹھیکے دیئے گئے ان میں سے کچھ کمپنیوں نے اربوں ڈالر ڈالر کمائے وہ حکمران جو غیر جمہوری طریقوں سے مسند اقتدار پر بیٹھتے ہیں ان کا یہ المیہ ہوتا ہے کہ ان کو پھر اقتدار میں رہنے کیلئے ان عالمی قوتوں کے زور بازو کو استعمال کرنا پڑتا ہے کہ جنہوں نے انہیں اقتدار دلانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہوتا ہے افغانستان کے حالات پر ہم اگر نظر ڈالیں اور زیادہ دور جانے کی بجائے ہم سردار داؤد کے دور حکومت سے موجودہ حکومت تک افغان حکمرانوں کی سیاسی ہمدردیوں کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ سردار داد کو اقتدار میں بٹھانے والے بھی سوویت یونین کے سابق حکمران تھے اور پھر ان کو افغان کمیونسٹوں کے ہاتھوں مروانے میں بھی سوویت حکمرانوں کا ہاتھ تھا کیونکہ انہیں جب یہ محسوس ہوا کہ سردار صاحب ماسکو کے احکامات کی حکم عدولی کر رہے ہیں تو انہوں نے ان کا پتہ کاٹ دیا ان کے بعد نور محمد ترکی‘ حفیظ اللہ امین‘ببرک کارمل اورڈاکٹر نجیب اللہ وغیرہ وغیرہ کے دور تک افغانستان کے حکمرانوں کی تعیناتی اور ان کی سبکدوشی میں اسوقت کے سویت یونین کا بڑا ہاتھ تھا۔کیا حامد کرزئی‘ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کو لانے میں امریکہ کے اثر رسوخ سے انکا رکیا جاسکتا ہے؟ جس کی آشیر باد کے بغیر ان کا کابل کے صدارتی محل میں ایک منٹ بھی ٹھہرنا محال تھا توہم نے بات شروع کی تھی افغانستان میں 2001سے لے کر 2021 تک غیر ملکی تجارتی کمپنیوں کے کاروبار کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں سر فہرست تین امریکی کمپنیاں ڈینکارپ‘ فلور اور کیلوگ تھیں جنہیں امریکہ کی حکومت نے سب سے بڑے ٹھیکے دئیے ان کمپنیوں کو لاجسٹک اور پروگرام فور سویلین کے تحت ٹھیکے دئے گئے۔ اس کے علاوہ انہیں معمولی نوعیت کے ٹھیکے بھی دیئے جاتے تھے تاکہ مختلف سروسز حاصل کی جا سکیں جیسے لاجسٹک‘ مینجمنٹ‘ ٹرانسپورٹ اور سپورٹ سامان کی مرمت‘ طیاروں کی دیکھ بھال وغیرہ۔ ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق صرف ڈینکارپ کو ٹھیکوں کی مد میں سے ساڑھے سات ارب ڈالرز کی ادائیگی کی گئی‘ اسی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ٹیکساس میں قائم کمپنی فلور کو جنوبی افغانستان میں امریکی فوجی اڈے تعمیر کرنے کیلئے ٹھیکے دئیے گئے تھے۔ کمپنی کی ویب سائٹ کے مطابق وہ اس ملک میں 56 اڈے آپریٹ کرتے تھے ایک لاکھ سے زیادہ فوجیوں کو سہولیات فراہم کرتے تھے اور ایک دن میں ایک لاکھ ننانوے ہزار سے زیادہ لوگوں کو کھانا کھلاتے تھے۔ایک طرح سے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ امریکہ نے افغانستان میں جو خرچہ کیا وہ کوئی گھاٹے کا سودا نہیں تھا بلکہ اس کا زیادہ تر حصہ وہ واپس امریکہ لے جا چکا ہے۔