ضرورت اصلاح احوال

باوجود اس کے کہ کسی سیاسی حقے کا پروردہ ہوں اور نہ ہی پیڈ رکن اور تعلق دار‘ بلکہ سوفی صد غیر جانبدار اور اس ملک میں غریب محنت کش اور کتاب و قلم یعنی تعلیم و تدریس کا طرفدار ہوں مگر اس ملک کے سیاسی نظام‘ جمہوریت‘ انتخابی کھیل‘ طرز معاشرت اور سماجی اور معاشی اونچ نیچ نیز  فرقہ پرستی‘ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے بارے میں لکھنے کا کوئی موقع میسر ہوا اور نہ ہی کوئی فورم۔عبدالواحد یوسفی صاحب نے جو کہ ہم سب کے محسن اور ہم سب کی پہچان تھے مجھے سال2000ء میں یونیورسٹی بھجوایا تھا یہ اس وقت کی بات ہے جب موجودہ خیبرپختونخوا اور اس وقت کے شمال مغربی سرحدی صوبے میں صرف چار یونیورسٹیاں قائم تھیں لیکن پشاور یونیورسٹی کیمپس میں اور ایک گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان۔ان دو عشروں کے دوران کوئی مراعات لی نہ ہی کوئی شیلڈ اور سرٹیفیکیٹ نہ ملازمت اور نہ ہی کسی دوسری آفر کو کیش کیا۔جامعات میں کلاس فور سے لیکر وائس چانسلر تک سب کیساتھ باہمی احترام و تعاون کا قریبی تعلق رہا۔مطلب ان جامعات کی خوبیاں اور خامیاں یا کمزوریاں جو میرے علم میں ہیں شاید کسی دوسرے کے ہاں ہوں مگر کسی کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے اور پگڑیاں اچھالنے کے طرز عمل سے ہمیشہ اجتناب کیا اس عرصہ کے دوران افتخار حسین خان جیسے وضع دار مگر طبیعت کے ذرا سخت آفیسر سے بھی قریبی ربط و تعلق رہا‘موصوف ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن ڈائریکٹر پلاننگ‘ رجسٹرار‘ کنٹرولر امتحانات اور ٹریژار رہے انہوں نے پورے کیمپس کا جو میپ تیار کرکے عملی طور پر ایک بورڈ کی شکل دی تھی وہ آج بھی جامعہ کے کانووکیشن ہال کے باہر موجود ہے اس طرح ایڈمن بلاک‘ ہر فیکلٹی اور دوسرے دفاتر کو جانیوالے راستوں پر بھی بورڈ لگائے تھے جو کہ اب موجودہ وائس چانسلر ڈاکٹر محمد ادریس کے دور میں ان کا رنگ روغن کرکے یا بعض کو نیا کرکے تبدیل کیاگیا مگر چند غلطیوں کیساتھ۔ موصوف نے کیمپس میں منشیات یعنی نسوار سگریٹ وغیرہ کی فروخت اور استعمال پر پابندی عائد کی تھی جو کہ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ایک عرصہ تک  نافذ رہی مگر اب نہیں بلکہ اس وقت تو دوسروں کو چھوڑ کر خود بعض استاد اور شاگرد بھی اس لت میں گرفتار نظر آتے ہیں اور پھر سب سے بڑھ کر رکشوں اور کیمپس میں آنیوالی پک اینڈ ڈراپ گاڑیوں کے ڈرائیوروں کا کیا کہئے؟ یہ اور کیمپس میں پائی جانیوالی دوسری بعض خامیوں اور کمزوریوں کی جانب انتظامیہ‘ پولیس اورفیکلٹی کی توجہ مبذول کرانے کی بارہا کوشش کی مگر نتیجہ صفر ہی رہا واقعہ یہ ہے کہ صرف یونیورسٹی کیمپس ہی پورے پشاور میں ایک ایسی جگہ تھی جہاں پر گرمی کے موسم میں درجہ حرارت باہر سے دوچار درجے کم ہوا کرتا تھا مگر اب ممکن ہے کہ باقیماندہ پشاور سے اگر زیادہ نہ ہو تو کم تو کسی طرح بھی نہیں ہوگا کیونکہ کیمپس اب وہ ماضی والا نہیں رہا بلکہ ایک جنرل بس سٹینڈ یا کم از کم جی ٹی روڈ میں تبدیل ہوگیا ہے کوئی روٹ‘ کوئی روک ٹوک‘ کوئی موزوں متعین اور مناسب پارکنگ نہیں البتہ تبدیلی کے اس نئے دور میں یہاں پر بھی ایک نئی تبدیلی یہ واقع ہوئی ہے کہ کیمپس کا روڈ نمبر2 جو کہ ہمیشہ سے رکشوں کے شوروغل اور دھوئیں سے محفوظ رہا اس پر بھی رکشہ سروس کی اجازت دیکر اس اکیڈمک ایریا کا بھی ستیاناس کردیاگیا۔