جوش نہیں ہوش 

افغانستان میں طالبان کی حکومت نے ملک میں موجود آئینی بحران ختم کرنے کیلئے سر دست افغانستان کے بادشاہ ظاہر شاہ کا بنایاہوا وہ آئین عارضی طور پر بحال کر دیا ہے جو انہوں نے 1964 میں بنایا تھا تاوقتیکہ کہ اگلے سال وہ ایک نیا آئین مرتب نہیں کر لیتے یہ ایک اچھا اقدام ہے کیونکہ ایک لمبے عرصے تک اس ملک میں آئینی خلا نہیں چھوڑا جا سکتا تھا۔ یاد رہے کہ یہ آئین اس وقت تک جاری و ساری رہا کہ جب تک ظاہر شاہ کی حکومت کا ان کے کزن سردار داؤد نے 1973 میں تختہ نہ الٹایا۔ ظاہر شاہ کے بنائے ہوئے 1964 کے آئین سے طالبان کو کما حقہ فائدہ اٹھانا چاہئے۔ آخر اس آئین میں کوئی نہ کوئی خوبی تو ضرورہو گی جو وہ ایک لمبے عرصے تک کامیابی سے چلتا رہا اور اگر ظاہر شاہ کے دور حکومت کا افغانستان میں ہی دیگر ادوار حکومتوں سے موازانہ کیا جائے تو نسبتاً ظاہرشاہ کے دور حکومت میں وہاں امن و امان کی صورت حال بڑی تسلی بخش رہی ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ افغانستان کی سوسائٹی ایک روایتی سوسائٹی ہے جہاں آج بھی صدیوں پرانے رواج کی جڑیں بہت مضبوط ہیں ان جڑوں کو کاٹ کر افغانستان کو ایک ماڈرن معاشرے میں ڈھالنے کی کوشش افغانستان کے ایک بادشاہ امان اللہ خان نے کی تھی پر چونکہ وہ فوراً عجلت میں بڑی تیزی کے ساتھ افغانستان کو ایک جدید مملکت بنانا چاہتے تھے ان کے خلاف افغانستان میں بسنے والے والے مختلف قبیلوں نے علم بغاوت بلند کیا جس کو ان کے سیاسی حریفوں نے اُچھالا اور ان کی حکومت کا دھڑن تختہ کر دیا اس لیے دانش اور عقلمندی کا تقاضہ یہ ہوگا کہ افغانستان کے موجودہ حکمران افغانستان میں ہر قسم کی اصلاحات کرنے سے پہلے تمام قبیلوں کو اعتماد میں لیں ترکی نے روس سے جو بھاری اسلحہ خریدنے کا فیصلہ کیا ہے اس پر امریکہ دل ہی دل میں خفا تو ضرور ہو گا کہ ترکی نیٹو کے عسکری معاہدے میں وہ اس کا اتحادی ہے۔ ترکی کی اگر کسی سے کھلم کھلا دشمنی ہے تو وہ یونان سے ہے اور یونان یقینا ترکی کے اس اقدام پر سیخ پا ہو گا۔ ادھر یونان نے فرانس سے ایٹمی آ بدوزیں خریدنے کا معاہدہ کر لیا ہے۔ اس صورت حال سے نیٹو کے اندر اس کے دو رکن ممالک یعنی ترکی اور یونان میں تلخیاں بڑھیں گی۔ شنید ھے کہ مودی کے حالیہ دورہ امریکہ کے دوران امریکی صدر نے ان سے بھارت میں کشمیر کے تناظر میں انسانی حقوق کی پامالی پر اپنی خفگی کا اظہار کیا جس پر بھارتی وزیراعظم کا جواب یہ تھا کہ متنازعہ ارٹیکل370 کا معاملہ بھارتی سپریم کورٹ میں زیر غور ہے۔ ماضی بعید میں کسی زمانے میں دنیا ملٹی پولرا کرتی تھی جب سوویت یونین کا شیرازہ بکھرا تو کچھ وقت کیلئے وہ یونی پولر ہوگئی اب روس کی واپسی اور چین کی ترقی کے بعد دنیا دوبارہ ملٹی پولر ہو گئی ہے پر اب کی اور پرانی ملٹی پولر دنیا میں فرق یہ ہے کہ ماضی میں دو بڑے گروپ ہوا کرتے تھے ایک سوویت بلاک تھا اور دوسرا امریکی بلاک امریکی بلاک کے ممالک نے اپنی حفاظت کیلئے نیٹو کی شکل میں ایک عسکری ادارہ بنایا ہوا تھا جبکہ سوویت بلاک نے اس کے مقابلے میں وارسا پیکٹ کے نام سے عسکری ادارہ بنایا تھا اب یہ دونوں ادارے عضو معطل ہو چکے ہیں آج کی دنیا میں سپر پاورز نے انفرادی طور پر اپنے ملکی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے مختلف ممالک سے علیحدہ علیحدہ عسکری اور معاشی معاہدے کرنے شروع کر دیئے ہیں۔کرائے کے فوجی ماضی میں بھی تھے اور آج کل بھی اس طرز عمل کا رجحان زور پکڑ رہا ہے۔ اور افغانستان میں امریکہ نے کسی پالیسی پر عمل کیا۔