آج دنیا کی سیاست تضادات کی شکار ہے۔ ترکی امریکی بلاک نیٹو کا رکن ہو کر بھی امریکہ کے ازلی دشمن روس سے جدید اسلحہ کی خریداری کے سودے کیلئے گفت و شنید کر رہا ہے جبکہ بھارت کے تلوں میں اتنا تیل نہیں کہ وہ اپنے پرانے حلیف روس سے آج اسلحہ خریدنے کا سوچ بھی سکے کیونکہ امریکہ نے اسے اپنے جام میں اُتار رکھا ہے۔ آج برطانیہ میں تیل کا بحران اس لئے پیدا نہیں ہوا کہ وہاں کوئی تیل کی کمی ہے۔ بلکہ وہ اسلئے پیدا ہوا ہے کہ وہاں پٹرول پمپوں پر تیل پہنچانے والے ٹینکروں کے ڈرائیوروں کی کمی ہے اور یہ کمی اس لئے نمودار ہو گئی ہے کہ برطانیہ کے یورپی یونین سے نکل جانے کے بعد وہاں کام کرنے والی لیبر فورس جس کا تعلق یورپی یونین سے تھا اپنے اپنے ممالک میں واپس چلی گئی ہے۔ ہزاروں یوپی ڈرائیور کورونا کی وبا کے ڈر سے بھی برطانیہ چھوڑ کر اپنے اپنے وطن کو بھاگ گئے ہیں۔ اگلے روز ایک نہیں بلکہ کئی امریکی جرنیلوں نے ببانگ دہل اس بات کو تسلیم کیا کہ امریکہ نے افغانستان کی جنگ سیاسی اور عسکری دونوں محاذوں پر ہاری ہے۔ امریکی رہنماؤں کے حالیہ بیانات کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ بین الاسطور وہ اپنی شکست کا تمام ملبہ پاکستان کے سر ڈالنا چاہتے ہیں حالانکہ امریکہ کی اس جنگ کا خمیازہ ہم ابھی تک بھگت رہے ہیں اور آج بھی،عسکریت پسندوں کے خلاف کاروائی میں ہمارے جوان اپنے خون کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔ دہشت پسند تنظیموں کو آخر کوئی تو اسلحہ فراہم کر رہاہوگا۔ ظاہر ہے ان کے پیچھے وہی قوتیں کھڑی ہیں کہ جو اس ملک کی بنیادوں کو ہلانا چاہتی ہیں۔ آج وقت کا تقاضہ ہے کہ ہماری وزارت خارجہ کم از کم چار مختلف وفود کی تشکیل دے۔جس میں پارلیمنٹ کے اراکین بشمول اپوزیشن کے سرکردہ لیڈر بھی شامل ہوں۔ صحافی حضرات اور ریٹائرڈ سفارت کار بھی ان کا حصہ ہوں جو یورپ امریکہ مشرق وسطی اور وسطی ایشیا کے مختلف ممالک کا ایک مربوط پروگرام کے تحت فوری طور پر علیحدہ علیحدہ دورہ کریں۔ وہاں جا کر وہ ان ممالک کے پارلیمانی نمائندوں‘ وہاں کے میڈیا کی سرکردہ شخصیات اور رائے عامہ ہموار کرنے والے دیگر اداروں کے کرتا دھرتاؤں سے ملاقاتیں کریں اور ان کو پاکستان اور افغانستان کے معاملات کے بارے میں حقائق سے آگاہ کریں اور انہیں یہ بتائیں کہ دہشت گردی کے خلاف دنیا میں اگر کسی ملک نے سب سے زیادہ نقصان اُٹھایا ہے تو وہ صرف پاکستان ہے لہٰذا ان ممالک کے پروپیگنڈوں پر کان نہ دھرا جائے کہ جو پاکستان کو بد نام کرنے کیلئے اس کے خلاف دروغ بیانی کر رہے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھہماری وزارت داخلہ افغانستان کی وزارت داخلہ سے گفت و شنید کر کے ان دونوں ممالک میں آمدورفت کے سلسلے میں ایک جامع پروگرام مرتب کرے جس کے تحت یہ ضروری قرار دیا جائے کہ جس طرح کسی پاکستانی کو امریکہ یا برطانیہ جانے کیلئے ایک طے شدہ امیگریشن کے قوانین کے تحت ویزا لینا پڑتا ہے۔ بالکل انہیں کی طرح پاکستان اور افغانستان بھی اپنا ایک امیگریشن نظام مرتب کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ ایک دوسرے ملک میں آنے جانے کیلئے ویزا صرف ان لوگوں کو دیا جائے کہ جو واقعی اس کے حقدار ہوں۔ اس بات کو بھی یقینی بنانا چاہئے کہ ان دو ممالک میں جو لوگ ویزے کے ذریعے آمد و رفت کریں وہ ویزا کی معیاد ختم ہونے سے پہلے ہی اپنے وطن واپس لوٹ جائیں یورپ میں گزشتہ 15 سالوں میں اگر کوئی مضبوط سیاسی شخصیت مانی جاتی تھی تو وہ جرمنی کی وائس چانسلر انجلینا مارکل کی تھی۔ اب چونکہ وہ اپنے منصب پر قائم نہیں رہی ہیں اور ان کی پارٹی حال ہی میں جرمنی میں ہونے والے عام انتخابات میں دوسرے نمبر پر آئی ہے تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یورپ میں ان کی جگہ کون لے سکتاہے سیاسی مبصرین کے مطابق فرانس کے صدر میکرون کے مقابلے میں سر دست یورپ میں کوئی دوسرا لیڈر نظر نہیں آ رہا کہ جو اینجلینا مارکل کی جگہ لے سکے۔