اہم ملکی اور بین الاقوامی امور

 ملک میں دن دہاڑے بر سر عام ڈکیتی چھینا جھپٹی اور سرقہ کی وارداتوں میں جو اضافہ آ ئے دن دیکھنے میں آ رہا ہے اس کے پیچھے کئی عوامل کار فر ماہوں گے پر اس کا ایک اہم سبب ملک کے نوجوان طبقے میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری بھی ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وطن عزیز میں آ بادی کے لحاظ سے سب سے بڑا طبقہ جوان سال لوگوں کا ہے جن معاشروں میں بے روزگاری زور پکڑنے لگے اور جائز طریقوں سے رزق حلال کمانے کے تمام ذرائعِ معدوم ہو جائیں وہاں بھوک اور پیاس کی طلب مٹانے کیلئے انسان اکثر ناجائز ذرائعِ پر اتر آ تا ہے‘ اس ملک میں بے روزگاری کیلئے وہ تمام ارباب اقتدار مشترکہ طور پر ذمہ دار ہیں کہ تا دم تحریر جن کے ہاتھوں میں اس ملک کی زمام اقتدار رہی انہوں نے دور اندیشی کی بجائے شارٹ ٹرم سیاسی مفادات کو مد نظر رکھ کر ملک کی معاشی پالسیاں مرتب کیں۔اس جملہ معترضہ کے بعد چلتے ہیں آج کے دیگر اہم قومی اور بین الاقوامی امور کی طرف شکر ہے کسی نے تو امریکی سینٹ میں پاکستان کی حمایت میں آواز تو اٹھائی امریکی سینٹر کرس ہولن نے امریکہ کی حکومت سے کہا ہے کہ وہ پاکستان پر انگلیاں نہ اٹھائے انہوں نے کانگریس میں افغانستان سے متعلق بل پیش کرنے پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان پر انگلیاں نہیں اٹھانی چائیں۔ امریکی سینٹرز کو پاکستان کی بجائے سابق صدر ٹرمپ پر تنقید کرنی چاہئے جو طالبان کو اقتدار میں لائے۔ پاکستان نے کبھی عالمی مفادات کے خلاف کام نہیں کیا۔امریکی سینیٹر کرس ھولن کانگریس میں افغانستان سے متعلق پیش بل پر پاکستان کی حمایت میں سامنے آ گئے اور کہا کہ ہمیں سابق صدر ٹرمپ پر تنقید کرنی چاہئے جو پاکستان اور اشرف غنی حکومت سے قیدی رہا کروا کے طالبان کو اقتدار میں لائے اور دوحہ معاہدہ میں افغان فورسز پر حملے روکنا تک شامل نہ کروایا ادھر امریکی نائب وزیر خارجہ کا یہ بیان ناقابل فہم ہے کہ پاکستان ان کے دورے سے قبل شدت پسند گروہوں کے خلاف کاروائی کرے امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمین نے پاکستان پر عسکریت پسندوں سے مفاہمت کی کوشش کا الزام لگاتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسلام آباد کے ان کے دورے سے قبل تمام شدت پسند ٹھکانوں کے خلاف کاروائی کرے امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمن 7 اکتوبر کو اسلام آ باد میں پاکستانی حکام سے ملاقات کریں گی یہ بات ایک عام پاکستانی کی سمجھ سے بالاتر ہے کہ آخر امریکی حکام پاکستان سے مزید کیا چاہتے ہیں کب امریکی حکومت کا کلیجہ ٹھنڈا ہوگا۔ پاکستان نے تو اب تک امریکہ کی دوستی میں کبھی بھی سکھ کا سانس نہیں لیا آج بھی ہمارے بہادر نوجوان اپنے خون کا نذرانہ پیش کر کے دہشت گردی کا مقابلہ کر رہے ہیں جو ایک لحاظ سے امریکہ کی وجہ سے اس ملک میں پیدا ہوئی ہے۔ کیا پاکستان نے ٹھیکہ لے رکھا ہے کہ وہ اس خطے میں امریکی سیاسی مفادات کی حفاظت کرے گا کالعدم ٹی ٹی پی کو وزیر اعظم صاحب نے جو امن کی پیشکش کی ہے اس ضمن میں یہ عرض ہے کہ چونکہ یہ بڑی حساس نوعیت کا مسئلہ ہے اس لیے بہتر طریقہ کار یہ ہوگا کہ اس پر حکومت پاکستان کے حکام پارلیمنٹ کے اندر یا پارلیمنٹ کے باہر اس ملک کے تمام سیاسی مکتبہ ہائے فکر کے اہم رہنماؤں کو اعتماد میں لینے کیلئے ان سے بات چیت کا ایک سلسلہ شروع کریں تاکہ یک زبان ہو کر اس سلسلے میں جو بھی قدم اٹھانا ملک کی بقا کیلئے ضروری ہے وہ اٹھایا جائے۔ آجکل ایک دوسری بڑی اہم خبر گردش کر رہی ہے اور وہ یہ ہے کہ امریکہ پاکستانی فضائی حدود کے استعمال میں ایک مرتبہ پھر دلچسپی کا اظہار کر رہا ہے مومن ایک سوراخ سے دو دفعہ ڈسا نہیں جا سکتا افغانستان میں القاعدہ کے ٹھکانوں پر بمباری کرنے کیلئے ہم نے ماضی میں امریکہ کو یہ اجازت دی کہ وہ ہماری فضائی حدود استعمال کرے اور ہم نے دیکھا کہ اس رعایت سے امریکہ نے بہت ناجائز فائدہ اٹھایا جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں اس لئے اس مسئلے میں آئندہ پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے ہم اس خطے میں اب مزید شاید اس بات کے متحمل نہیں ہو سکتے کہ امریکی مفادات کی نگرانی کریں ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ آج امریکہ چین کو تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے بلکہ آئندہ اس کی خارجہ پالیسی کا محورہی یہ ہو گا کہ چین کو زیادہ سے زیادہ ہر قسم کا نقصان پہنچایا جائے لہٰذا ہمیں اس معاملے میں بڑا محتاط رہنا چاہئے۔