چین اور بھارت دونوں نے لداخ کے علاقے میں فوجیں جمع کرنا شروع کر دی ہیں چین تو خیر روز اول سے ہی اسے اپنا اٹوٹ انگ کہتا ہے البتہ بھارت نے یہ واویلا مچا رکھا ہے کہ جس علاقے میں چین کی افواج نقل و حرکت کر رہی ہیں وہ اس کی ملکیت ہے۔ خدا نہ کرے کہ اس علاقے میں جنگ پھوٹ پڑے گو امریکہ ضرور چاہے گا کہ بھارت کو آگے کر کے چین کو ایک نئے معاملے میں الجھائے اب تک چین نے کمال دور اندیشی اور حوصلے سے اپنے آپ کو عالمی تنازعات سے بچا کر رکھا ہوا ہے اور اپنی تمام تر توجہ اپنی معاشی ترقی پر مرکوز کر رکھی ہے بھارت ایک خطرناک کھیل کھیل رہا ہے۔ وہ چین کو مات تو دے نہیں سکتا اُلٹا اپنے آپ کا معاشی اور عسکری نقصان ہی کرے گا۔ ہاں البتہ اس جنگ سے چین کے وہ تمام ترقیاتی منصوبے بری طرح متاثر ہو سکتے ہیں جن میں وہ کئی ممالک میں سرمایہ کاری کر رہا ہے اور یہ ہی غالباً امریکہ کی مرضی بھی ہے۔کچھ عرصے سے شمالی اور جنوبی وزیرستان میں ایک مرتبہ پھر دہشت گردی کے واقعات تواتر سے رونما ہو رہے ہیں‘ امریکہ اور بھارت کے علاوہ ہمارا اور کون دشمن ہو سکتا ہے امریکہ ہم سے اس لئے نالاں ہے کہ ہم اسے اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے رہے۔طالبان کے معاملات میں ہماری اور اس کی سوچ میں کافی فرق آچکا ہے بھارت تو خیر روز اول یعنی1947 سے ہی ہمارے وجود کے خلاف ہے اور آج اسے تکلیف اس بات پر ہے کہ افغانستان کی نئی حکومت اسے اب اس طریقے سے گھاس نہیں ڈال رہی کہ جس طرح ماضی کی افغان حکومتیں اسے ڈالتی رہی ہیں ورنہ گزشتہ کئی برسوں سے وہ افغانستان کی سرزمین کو ہمارے خلاف ساز شوں کیلئے استعمال کرتا آیا ہے۔ جس دن سے آسٹریلیا نے فرانس سے آبدوزیں خریدنے کا معاہدہ کینسل کیا ہے فرانس امریکہ سے اس لئے نالاں ہے کہ آسٹریلیا نے یہ فیصلہ امریکہ کے کہنے پر کیا ہے۔ حال ہی میں آسٹریلیا اور برطانیہ کے ساتھ مل کر امریکہ نے جو عسکری معاہدہ کیا ہے اس میں فرانس کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے فرانسیسی سیاسی مبصرین امریکہ سے یہ گلہ کر رہے ہیں کہ فرانس کو نظر انداز کر کے امریکیوں نے احسان فراموشی کا ثبوت دیا ہے اور وہ یہ بات آسانی سے بھول گئے ہیں کہ اگر فرانسیسی جنگ آزادی میں امریکیوں کی مدد نہ کرتے تو وہ برطانیہ کی غلامی سے کبھی بھی آزاد نہ ہو سکتے۔ بعض سیاسی مبصرین کا یہ خیال ہے کہ اگر آج اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے چین فرانس سے وہ آبدوزیں خریدنے کا فیصلہ کر لے کہ جو اب آسٹریلیا اس سے نہیں خرید رہا تو اس کا یہ عمل سیاسی طور پر ایک ماسٹر سٹروک بھی ہوگا اور چین اٹیمی آبدوزوں کی یورپی ٹیکنالوجی بھی حاصل کرلے گا۔ اس وقت بین الاقوامی سطح پر ایک بار پھر سرد جنگ کا ماحول بن گیا ہے اور ایک طرف اگر روس اور چین ممالک کی قیادت کر رہے ہیں تو دوسری طرف امریکہ نے اپنا گروپ بنایا ہوا ہے اور کوشش کی جا رہی ہے کہ چین کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے اس مقصد کے لئے آسٹریلیا کو مضبوط کیا جا رہا ہے اور اسے جوہری آبدوزوں سے لیس کیا جا رہا ہے دوسری طرف کواڈ تنظیم جس میں بھارت اور جاپان بھی شامل ہے کو چین کے خلاف منظم کیا گیا ہے اس طرح فرانس نے جو ردعمل ظاہر کیا ہے وہ بھی سمجھ آنے والی بات ہے کیونکہ امریکہ نے یورپ کی بجائے اب چین کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لئے ایشیاء کا رخ کیا ہے اور یورپ کے ساتھ اس کے تعلقات کشیدہ ہوتے جا رہے ہیں اس کو عالمی مبصرین ایک اور زاویے سے دیکھ رہے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ آنے والے وقتوں میں امریکہ اور یورپ میں فاصلے بڑھ سکتے ہیں جس کا نتیجہ ممکنہ طور پر چین کے حق میں نکل سکتا ہے یورپ اگر چین کے قریب آتا ہے تو امریکہ کو لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں اور چین کو ایشیاء کے ساتھ ساتھ یورپ میں بھی اپنی گرفت مضبوط کرنے کا موقع مل سکتا ہے جس سے وہ ضرور فائدہ اٹھائے گا روس کا بھی اس میں اہم کردار ہے اور یورپ تقسیم ہونے سے روس کو بھی فائدہ ہوگا جرمنی اور فرانس پہلے ہی روس کے قریب سمجھے جاتے ہیں اور امریکہ کے لئے وہ اپنی معیشت کو خطرے میں ڈالنے سے گریز کر رہے ہیں فرانس اور جرمنی دونوں ممالک کے روس کے ساتھ معاہدات ہیں اور ان پر عملدرآمد بھی کیا جا رہا ہے جہاں تک جرمنی کا تعلق ہے تو عالمی مبصرین اس کے نئے کردار کو اہمیت دے رہے ہیں اور ایسے حالات میں ایک بار پھر یورپ کی قیادت جرمنی کے ہاتھ میں آ سکتی ہے اور فرانس بھی اس سلسلے میں جرمنی کا ساتھ دے گا یہ عالمی منظر نامے کی وہ بدلتی شکل ہے جس کے اثرات دوررس ثابت ہونگے اورایک نئی صف بندی کی صورت میں ممالک ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہو سکتے ہیں۔جب بھی بین الاقوامی مارکیٹ میں پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو لامحالہ ہماری حکومتوں کو بھی پٹرول کی قیمت میں اضافہ کرنا پڑتا ہے اور ایک مرتبہ جب پٹرول کی قیمت میں اضافہ ہو جائے تو اس کا اثر پھر تمام اشیائے خوردنی کی قیمتوں پر بھی پڑتا ہے اور وہ بھی بڑھ جاتی ہیں اس ملک کا یہ المیہ رہا ہے کہ جب بین الاقوامی مارکیٹ میں پیٹرول کی قیمتیں گرتی ہیں تو اس صورت میں پھر ہونا تو یہ چاہئے کہ ہماری حکومتیں بھی اسی تناسب سے پٹرول کی قیمت کم کر دیں جس سے پھر اشیاے خوردنی کی قیمتوں میں بھی اسی حساب سے کمی آ نی چاہئے پر ایسا کبھی ہوا نہیں۔ وطن عزیز میں جب بھی کسی چیز کی قیمت میں پٹرول کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے ایک مرتبہ اضافہ ہوا وہ پھر دوبارہ کبھی کم نہ ہو۔ا یہ کام نہ تو وزیراعظم کا ہے اور نہ صدر پاکستان کہ وہ اشیا خوردنی کی قیمتیں مقرر کریں یہ کام بنیادی طور پر سول انتظامیہ اور محکمہ خوراک کا ہے کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر مارکیٹ میں اشیائے خوردنی کی قیمتوں پر گہری نظر رکھیں اور ڈیمانڈ اور سپلائی کو مد نظر رکھ کر ایسا میکنزم تیار کریں کہ اگر بین الاقوامی سطح پر پٹرول کی قیمت میں اضافے سے ملک کے اندر پٹرول کی قیمت بڑھی ہے تو پھر اس کے تناسب اشیائے صرف کی قیمتوں کو کنٹرول میں رکھا جاسکے۔ ماضی بعید میں ہر ضلع میں ڈسٹرکٹ پرائس کنٹرول کمیٹی ہوا کرتی تھیں جو ڈپٹی کمشنر کی زیر صدارت ہر ماہ باقاعدگی سے اجلاس کیا کرتی تھی اور ان کی پیشگی اجازت کے بغیر کوئی تاجر اشیاء خوردنی کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کر سکتا تھا۔ضلع کے معززین وکلاء، صحافی اور تاجر برادری اور صارفین کے نمائندے ان کمیٹیوں کے رکن ہوا کرتے تھے۔