مجوزہ مذاکراتی عمل کا پس منظر اور اس کی مخالف

وزیر اعظم عمران خان کے اس انٹرویو پر ملک بھر میں بحث جاری ہے جس کے دوران انہوں نے کہا تھا کہ حکومت تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ افغان طالبان کے ذریعے مذاکرات یا رابطہ کاری میں مصروف ہے، ان کے مطابق یہ عمل ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے۔یہ بات اس سے قبل صدر عارف علوی اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی چند ہفتے قبل کہہ چکے تھے، تاہم عمران خان کے انٹرویو پر حسب توقع اپوزیشن نے سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے اس مجوزہ عمل کے بارے میں مختلف اعتراضات یا نکات اٹھائے ہیں۔  ہتھیار ڈالنے والوں کو معافی کیوں دی جارہی ہے اور دوسرا یہ کہ کیا اس اعلان سے قبل پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا گیا؟۔ افغان طالبان نے بیس سالہ جنگ کے دوران مذاکراتی عمل کے دوران ماضی کی ہلاکتوں کا ذکر کرنے کی بجائے مستقبل کے لائحہ عمل پر فوکس رکھا اور معاہدے کے تحت امریکی وہاں سے نکل بھی گئے۔ جہاں تک پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے کا تعلق ہے تو ایسی رابطہ کاری ہمیشہ خفیہ رکھی جاتی ہے اور اس پر بحث اس وقت کی جاتی ہے جب یہ معاہدے یا اعلان کی سطح پر پہنچ جائے اور شرائط سامنے آجائیں۔ سوال یہ بھی تو کیا جاسکتا ہے کہ جب پیپلز پارٹی اور اے این پی 2009میں سوات معاہدہ کر رہی تھیں تو پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا گیا تھا؟۔ اس کی تازہ مثال امریکہ کی دی جاسکتی ہے جس نے2019 کے دوران دوحا مذاکراتی عمل کا آغاز کیا مگر اس دوران نہ تو پارلیمنٹ اور اپوزیشن کو اعتماد میں لیا اور نہ ہی2020 کے اوائل تک کی تفصیلات معلوم ہو سکیں جہاں تک موجودہ مجوزہ رابطہ کاری کا تعلق ہے اسکا آغازجون2021 کے دوران ہوا تھا جب پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان اس معاملے پر بات چیت ہوئی کہ اگر طالبان ٹیک اوورکرتے ہیں تو ان ہزاروں ٹی ٹی پی جنگجوؤں کا کیا ہوگا جو کہ افغانستان میں موجود ہیں اور پاکستان پر حملے کرتے آرہے ہیں 15اگست کے بعد طالبان نے ٹی ٹی پی کے ساتھ بات چیت کیلئے 3رکنی کمیٹی قائم کی جس نے انہیں اپنے خدشات اور فیصلے سے آگاہ کیا اور ان کو تجویز پیش کی گئی کہ وہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کریں اسی دوران ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ پاکستان ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کرے اور یہ کہ افغان حکومت کسی کو بھی افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے نہیں دے گی۔ عمران خان نے شاید حالیہ بیان اسی پس منظر میں دیا ہو۔ ایک بات تو طے ہے کہ خطے کے حالات بدل گئے ہیں اور مزید بدل رہے ہیں اگر ٹی ٹی پی جنگ اور حملے ترک کرتی ہے تو اس میں برائی یا نقصان ہی کیا ہے؟ ٹی ٹی پی کی مزاحمت کی ایک بنیادی وجہ افغانستان میں امریکی مداخلت اور 2001ء کے بعد پاکستان اور امریکہ کا اتحاد تھا اب وہ جواز ختم ہوچکا۔ٹی ٹی پی کے سنجیدہ لیڈروں کو یہ احساس ہو چکا ہوگا کہ اگر وہ مزاحمت جاری رکھتے ہیں تو اس سے اس نئی افغان حکومت کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا جسکی ٹی ٹی پی حامی رہی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی مخالفت کی بجائے پاکستان کو درپیش چینلجز کے تناظر میں اس معاملے پر حکومت کے ساتھ تعاون کیا جائے۔