یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ وہ لوگ آ خر کون ہیں جو افغانستان کے موجودہ حکمرانوں کو سکھ کا سانس لینے نہیں دے رہے اور اور ان کیلئے آئے دن نت نئے مسائل کا انبار کھڑا کرنے میں مصروف ہیں ظاہر ہے کہ بھارت اور امریکہ دونوں افغانستان کے موجودہ حکمرانوں کے بیری ہیں کیونکہ ان دونوں کی اس وقت کابل میں دال نہیں گل رہی اگلے چند گھنٹوں میں امریکہ کی نائب وزیر خارجہ اسلام آباد کا دورہ کر رہی ہیں یقینا اس دورے کے دوران وہ پاکستان کو ممکنہ اقتصادی پابندیوں کی دھمکیوں سے ڈرانے دھمکانے کی کوشش کریں گی۔ وہ ہمارے حکمرانوں کو گاجر بھی دکھائیں گی اور چھڑی بھی۔ اب بھی پاکستان میں موجود کچھ امریکہ کے حامی سیاسی حلقوں کی کوشش میں ہے کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ اسی طرح شیر و شکر ہو جائے کہ جس طرح وہ ماضی میں تھا۔ پاکستان بننے کے بعد اگر ہم نے اپنی خارجہ پالیسی میں توازن رکھا ہوتا اور اس وقت کی سپر پاور سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان مخاصمت میں اپنا تمام وزن امریکہ کے پلڑے میں نہ ڈالا ہوتا تو ماسکو ہم سے کبھی بھی نالاں نہ ہوتا اور اگر وہ ہم سے ناراض نہ ہوتا تو 1971 کی پاک بھارت جنگ کے دوران وہ ہمارے خلاف بھارت کی کھلم کھلا حمایت کبھی بھی نہ کرتا۔سوویت یونین کے حصے بخرے کر کے امریکہ اپنا کلیجہ ٹھنڈا کرنے کے بعد اب وہ چین کا بھی وہی حشر نشر کرنا چاہتا ہے جو کہ اس نے سوویت یونین کا کیا تھا اور اس مقصد کیلئے آئندہ چند برسوں میں اب اس کا ہدف یہ ہوگا کہ چین کی معیشت اس کی سیاست اور اس کی عسکری قوت پر کاری ضرب لگائی جائے پر اب اس کو جو مسئلہ درپیش ہے وہ یہ ہے کہ آج کل ایک نہیں بلکہ دو سپر پاورز یعنی چین اور روس اس کے مد مقابل کھڑے ہیں یعنی یک نہ شد دو شد۔اس ملک کے عام آدمی کا حکومت وقت پر پورا اعتماد ہے کہ وہ اب کی دفعہ ایک مرتبہ پھر امریکہ کے جھانسے میں نہیں آئے گی اور اس کی کوئی بھی ایسی بات نہیں مانے گی کہ جس سے اس خطے میں چین یا روس کے کسی سیاسی معاشی یا عسکری مفادات کو کوئی زک پہنچتی ہو۔ امریکہ کے جنرل میکینزی کی اس بات پر ہمیں حیرت ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ہم طالبان پر اعتماد نہیں کرتے بلکہ ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ کیا کرتے ہیں نہ کہ کیا کہتے ہیں کمال ہے کہ یہ بات وہ لوگ کر رہے ہیں جو افغانستان میں دہشتگردی کے خاتمے اور القاعدہ کے غیر فعال ہونے اور جنگی مقاصد حاصل ہونے کا اعلان کرکے رات کی تاریکی میں افغانستان سے بھاگ گئے تھے اور صرف ایک ماہ کے بعد اب القاعدہ اور داعش خراسان کی وہاں موجودگی کا ڈھول پیٹ رہے ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ جن لوگوں نے افغان حکومت کو چھوڑ کر خود طالبان سے اپنے فوجیوں کی باحفاظت واپسی کیلئے معاہدے کئے اب وہ اوروں پر الزام لگا رہے ہیں اور خود افغانوں کے 9 ارب ڈالر منجمد کر کے مظلوم عوام کو موت کے منہ میں دھکیلنے کی سازش کر کے اب وہ مشروط امداد دے کر ان کی جان بچانے کا ڈرامہ رچا رہے ہیں۔اس وقت عالمی سطح پر جو کھیل کھیلے جا رہے ہیں ان میں سرفہرست کھیل امریکہ کا چین کے گرد گھیرا تنگ کرنا ہے اور اس مقصد کیلئے اسے جو میدان ملا ہے وہ اس کا آزمودہ ہے یعنی افغانستان، اب امریکہ افغانستان میں بد امنی کے ذریعے چین کی ان کوششوں کو ناکام بنانے کی کوشش کر رہاہے جو وہ وسطی ایشیاء تک سی پیک جیسے منصوبوں کے ذریعے رسائی تلاش کررہاہے۔ افغانستان سے امریکہ تو گیا تاہم اس نے یہاں پر اپنے حامیوں اور جاسوسوں کا جو جال بچھایا ہوا ہے وہ اب بھی فعال ہے اور یہ جو افغانستان میں بد امنی ہو رہی ہے اور یا پاکستان کے سرحدی علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات سامنے آرہے ہیں وہ سراسر امریکہ اوراس کے حامیوں کی کارستانی ہے۔
اشتہار
مقبول خبریں
پشاور کے پرانے اخبارات اور صحافی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سٹریٹ کرائمز کے تدارک کی ضرورت
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
فرسودہ فائر بریگیڈ سسٹم
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
معیشت کی بحالی کے آثار
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
فوجداری اور ریونیو مقدمات
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
ممنوعہ بور کے اسلحہ سے گلو خلاصی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکہ کی سیاسی پارٹیاں
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سعودی عرب کی پاکستان میں سرمایہ کاری
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکی پالیسی میں تبدیلی؟
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سموگ کا غلبہ
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ