اچھا فیصلہ

پنڈورا پیپرز میں جن پاکستانیوں کے نام آ ئے ہیں ان کی چھان بین کیلئے حکومت نے جو کمیشن بنانے کی بات کی ہے وہ وقت کا تقاضا ہے اور امید ہے کہ یہ کمیشن تیزی کے ساتھ کام کرکے جلد از جلد اس معاملے کی تہہ تک پہنچ جائے گی۔ ماضی میں لاتعداد کمیشن بنتے دیکھے پر ان کے نتائج خاطر خواہ سامنے نہیں آئے تاہم وزیر اعظم پاکستان جس کام کو کرگزرنے کی ٹھان لیتے ہیں تو پورا کرکے دم لیتے ہیں اس لئے مذکورہ کمیشن سے اچھی کارکردگی کی توقع ہے۔خدا لگتی یہ ہے کہ کچھ امیر لوگوں نے اپنی ناجائز آمدنی کو چھپانے کے واسطے ہر دور میں نت نئے رستے بنائے ہیں کسی دور میں سوئزرلینڈ کے بنک ان لوگوں کا کالا دھن چھپا کر رکھنے کے لئے کافی بد نام تھے آج کل آ ف شور کمپنیوں کا چرچا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ابھی تک وطن عزیز میں tax avoidance اور tax evasion کے درمیان کسی بھی حکومت نے کوئی واضح لکیر نہیں کھینچی اب تک ایسا کچھ نہیں کیا گیا پاکستان کی صورتحال امریکہ سے کافی مختلف ہے جہاں ٹیکس قواعد میں میں خامیوں سے ا میر کارپوریشنز فائدہ اٹھاتی ہیں اورملکی ناجائز منافع کو ان ملکوں میں لے جاتی ہیں جہاں ٹیکس کی شرح بہت کم ہے جہاں تک وطن عزیز کا تعلق ہے دیکھا یہ گیا ہے کہ ہمارے امیر لوگ اپنی نا جائز کمائی بیرون ملک شیل کارپوریشنز میں صرف ٹیکس چوری کرنے کیلئے ہی نہیں رکھتے بلکہ ان کا مقصد اسے خفیہ رکھنا اور اس سے پھر جائیدادیں خریدنا بھی ہوتا ہے کیا یہ حقیقت نہیں کہ پینڈورا پیپرز میں جن پاکستانیوں کی آف شور کمپنیوں کا نام آیا ہے ان میں سے اکثر نے ایف بی آر کو جمع کرائے گئے ٹیکس ریٹرنز میں ان کا ذکر ضرور کیاہے لیکن صرف ذکر کافی نہیں ان سے منی ٹریل کا بھی پوچھنا چاہئے ان سے پوچھا جائے کہ انھوں نے اپنی دولت پاکستان سے باہر کیسے پہنچائی اور وہاں جائیداد کیسے خریدی منی ٹریل کا پوچھنا نہایت ضروری ہے پنڈورہ لیکس میں آنے والے افراد نے یہ وضاحت تو کر دی ہے کہ انہوں نے تو اپنی آف شور کمپنی ایف بی آر کے سامنے ڈکلیئر کر دی تھی پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ کافی ہے یقینا یہ کافی نہیں انہیں یہ بتانا چاہئے کہ وہ کتنی رقم باہر لے گئے تھے‘ کب لے گئے تھے کیسے لے گئے تھے اور یہ رقم انہوں نے کیسے کمائی اور کس ذریعے سے اسے باہر منتقل کرکے آف شور کمپنی بنائی۔ طالبان کے زیر انتظام مقامی حکام نے آمدورفت کے ایک تنازعے کے باعث افغانستان کے ساتھ اہم سرحدی گزر گاہ کو بند کر دیا اس اقدام سے چمن بارڈر کے دونوں اطراف کافی مسافر ٹرک اور کنٹینرز پھنس کر رہ گئے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ پاک افغان بارڈر بھلے وہ خیبرپختونخوا میں ہو یا بلوچستان میں نہایت حساس نوعیت کا بارڈر ثابت ہوا ہے۔ اس قسم کے واقعات ان جگہوں پر نہیں پیدا ہونے چاہئیں کیونکہ ان سے پھر بدگمانی اور بد امنی کی ایک فضا پیدا ہوتی ہے جو دونوں ملکوں کیلئے نقصان دے ثابت ہو سکتی ہے اس قسم کے چھوٹے موٹے واقعات بارڈرز پرہوتے رہتے ہیں یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے پر ان سے نپٹنے کیلئے دونوں ممالک آپس میں ایک مشترکہ بارڈر کنٹرول اتھارٹی بنا سکتے ہیں جس کے افراد 24گھنٹے بارڈر پر موجود رہیں اور اگر کسی معاملے میں کوئی غلط فہمی یا بدمزگی پیدا ہو تو اسے بر وقت رفع دفع کر ایا جا سکے۔ ویسے پاکستان اور افغانستان کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کی ہر دور میں کوششیں کی گئی ہیں اور اس وقت تو خاص کر بھارت کی توجہ اسی پر مرکوز ہوگی کیونکہ اسے افغانستان سے بے دخل ہونا پڑا ہے جہاں سے وہ پاکستان کے خلاف سازشیں کرنے میں مصروف تھا۔