الیکشن کمیشن آف پاکستان نے خیبرپختونخوا حکومت سے مجوزہ بلدیاتی الیکشن کا شیڈول طلب کرکے ایک بیان میں واضح کردیا ہے کہ2023ء کے عام انتخابات تجدید شدہ انتخابی فہرستوں کے مطابق کرائے جائینگے بیان کے مطابق نومبر میں بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے الیکشن کمیشن کا اہم اجلاس14اکتوبر کو طلب کیاگیا ہے جس میں اہم فیصلے کئے جائینگے اور اس بات کا جائزہ لیا جائیگا کہ خیبرپختونخوا حکومت کی تیاریاں کتنی اطمینان بخش ہیں یہ امر قابل افسوس ہے کہ صوبائی حکومتیں بوجوہ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے گریز کے رویے پر گامزن ہیں حالانکہ وزیر اعظم عمران خان اور انکی پارٹی کے منشور اور ترجیحات میں نچلی سطح تک اختیارات کی منتقلی روز اول سے شامل رہی ہے۔2013ء کے بعد جب خیبرپختونخوا میں پرویز خٹک وزیر اعلیٰ تھے تو انہوں نے بلدیاتی الیکشن کرائے اور اسکے نتیجے میں نہ صرف نئے نظام کی بنیاد ڈالی گئی بلکہ اپوزیشن کو بھی متعدد اضلاع میں کافی نمائندگی ملی اور بلدیاتی اداروں نے کافی حد تک ڈیلیور بھی کیا تاہم گزشتہ کئی برسوں سے بوجوہ نئے انتخابات انعقاد نہیں کیا جارہا۔اس سے قبل پشاور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ آف پاکستان نے متعدد بار بلدیاتی الیکشن نہ کرانے پر حکومتوں کے خلاف جہاں کافی سخت ریمارکس دیئے وہاں ناراضگی کا اظہار بھی کیا اب جاکر اگر کے پی حکومت نے الیکشن کرانے پر آمادگی کا اظہار کیا ہے تو یہ خوش آئند بات ہے اور اب اسکو عملی جامہ پہنانا چاہئے۔ صوبائی ترجمان کامران بنگش کے مطابق ان کی حکومت بلدیاتی اداروں کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہے تاہم کورونا بحران اور بعض دیگر رکاوٹوں کے باعث اسکے انعقاد میں تاخیر ہوئی۔کامران بنگش اپوزیشن کے اس تاثر کو غلط قرار دے رہے ہیں کہ حکومت اسلئے الیکشن سے گریزاں ہے کہ اسکو اپنی ناکامی کا کوئی خوف لاحق ہے ان کے مطابق اپوزیشن ملکر بھی پی ٹی آئی کا مقابلہ نہیں کر سکتی قبل ازیں جب چند ہفتے قبل پختونخوا سمیت پورے ملک کے42 کنٹونمنٹ بورڈز کے الیکشن ہوئے تو صوبے میں تحریک انصاف نے20نشستیں حاصل کیں جو کہ اپوزیشن کی تمام مجموعی سیٹوں سے زیادہ تھیں۔ہزارہ‘ جنوبی اضلاع اور نوشہرہ میں پارٹی نے کلین سوئپ کیا جس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ تمامتر خدشات اور عوامی مایوسی کے باوجود تحریک انصاف خصوصاً عمران خان کو صوبہ پختونخوا میں اب بھی مقبولیت حاصل ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حکومت نے پورے ملک میں مردم شماری کرانے کا اعلان کردیا ہے جس سے خیبرپختونخوا کے ووٹرز کی تعداد میں غیر معمولی اضافے کی توقع ہے کیونکہ پچھلی مردم شماری کے دوران صوبے میں امن و امان کی بدتر صورتحال کے باعث کافی تعداد میں شہری مردم اور خانہ شماری کے اندراج سے محروم رہ گئے ہیں اب کے بار خیبرپختونخوا کے نئے ضم شدہ اضلاع کو بھی مردم شماری اور بلدیاتی عمل کا حصہ بنایا جائے گا توقع ہے کہ اگر درست طریقے سے وہاں نئے نظام کے تحت مردم شماری کرائی گئی تو ان علاقوں کے ساتھ ماضی میں ہونیوالی زیادتی کی تلافی ہو سکے گی کیونکہ پچھلی دفعہ کافی شکایات سامنے آئی تھیں اور یہ کہا گیا تھا کہ قبائلی اضلاع کی آبادی30سے40 فیصد کم دکھائی گئی ہے حکومتی حلقوں کے مطابق اب کے بار یہ تجویز بھی زیر غور ہے کہ صوبے کے مختلف ڈویژنوں میں مرحلہ وار بلدیاتی الیکشن کا انعقاد کیا جائے گا۔روایتی طریقہ پر تو ایک ہی روز الیکشن کرائے جاتے ہیں تاہم اگر حکومت کا ایسا کوئی ارادہ ہے تو اسکے لئے لازمی ہے کہ اپوزیشن کو کے پی اسمبلی کی سطح پر اعتماد میں لیا جائے تاکہ بلدیاتی نظام کے فوائد کو عوام کی ترقی اور نمائندگی کیلئے احسن طریقے سے بروئے کار لایا جاسکے اور اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کا راستہ ہموار ہو۔