سیاسی مدوجزر

اگر آپ آج کی دنیا کی سیاست پر ایک تنقیدی نظر ڈالیں تو آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ آج کی دنیا کے کئی ممالک تضادات کی سیاست کا شکار ہیں۔ اتر پردیش بھارت کا سب سے بڑا صوبہ ہے گزشتہ کئی مہینوں سے بھارت میں کسانوں نے حکومت کے خلاف جو تحریک چلا رکھی ہے آج کل اس کا مرکز اتر پردیش بن چکا ہے اگلے روز وہاں کسانوں کی ایک بہت بڑی ریلی پر گاڑی چڑھا دی گئی جس سے چار کسان اس کے پہیوں کے نیچے آ کر ہلاک ہو گئے۔کسانوں کی تحریک کے رہنماؤں نے الزام لگایا ہے کہ اس گاڑی میں ایک وزیر کا بیٹا بھی سوار تھا اور یہ کہ انہوں نے یہ گاڑی جان بوجھ کرکسانوں کو روندنے کے واسطے ان پر چڑھائی ہے۔ بھارت میں کافی عرصے سے کسانوں نے حکومت خلاف علم بغاوت بلند کیا ہوا ہے پر مجال ہے کہ بھارتی جنتا پارٹی کے حکمرانوں کے کان پر جوں بھی رینگی ہو آج کل کے دور میں کوئی بھی حکمران انتہا پسندی کے زور پر اپنے ملک میں رہنے والی اقلیتوں یا حریف سیاسی گروپوں کو دبا کر حکومت نہیں کر سکتا مودی سرکار کو آئندہ عام انتخابات میں اپنی انتہا پسند پالیسی کی بہت بڑی قیمت چکانی پڑے گی۔ امریکہ کے دوغلے پن کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ایک طرف تو وہ انسانی حقوق کی حفاظت کا ڈھنڈورا پیٹتا رہتا ہے پر دوسری طرف اسے بھارت کی حکومت کی کشمیر اور دوسرے صوبوں میں اقلیتوں کے خلاف انتہا پسندی نظر نہیں آتی۔ ادھر تائیوان اور چین کے درمیان بھی تلخی بڑھتی جا رہی ہے اگلے روز تائیوان کی حکومت نے شور مچایا کہ چینی فضائیہ کے جہاز مسلسل اس کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کر رہے ہیں جبکہ چین کا موقف یہ ہے کہ چونکہ تائیوان اس کا ایک جزو لاینفک ہے لہٰذا اگر اس کے جہاز فضائی مشقوں کیلئے تائیوان کے اوپر پرواز کرتے ہیں تو وہ کسی ملک کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کے زمرے میں نہیں آ تے یہاں یہ بات واضح کرناضروری ہے کہ تائیوان کا اگر اس دنیا میں کوئی اتحادی ملک ہے تو وہ صرف امریکہ ہی ہے اور کمال کی بات یہ ہے کہ امریکہ نے ابھی تک اسے تسلیم نہیں کیا وہ اس کے بر عکس چین کو تسلیم کرتا ہے اسی طرح اقوام متحدہ بھی تائیوان کو تسلیم نہیں کرتا البتہ امریکہ چین کو چھیڑنے کیلئے کبھی کبھار تائیوان کو ہلہ شیری دیتا رہتا ہے خدا لگتی یہ ہے کہ اگر چین تائیوان پر حملہ کرے تو وہ صرف ایک دن کی مار ہے۔ تائیوان کے نزدیک کئی سو کلومیٹرز تک امریکہ کا کوئی ملٹری نیٹ ورک موجود نہیں کہ جو چین کے ساتھ جنگ میں اس کی مدد کو آ سکے اور اب آ جاتے ہیں چند اہم غور طلب قومی امور کی جانب۔ وزیر اعظم صاحب کا منی لانڈرنگ کے بارے میں تازہ ترین بیان ایک لمحہ فکریہ فراہم کرتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ ترقی پذیر ملکوں سے ہر سال ایک ٹریلین ڈالر محفوظ پناہ گاہوں میں منتقل ہو رہے ہیں اور اس لوٹ مار کی وجہ ترقی پذیر ملکوں کی بدعنوان حکمران اشرافیہ ہے۔ ان محفوظ پناہ گاہوں میں 7 ٹریلین ڈالرز چھپائے گئے ہیں اگر منی لانڈرنگ کا تسلسل جاری رہا تو دنیا کے چند امیر ممالک پوری دنیا کی دولت سمیٹ لیں گے اس ناانصافی کو روکنا ضروری ہے کیونکہ اس سے امیر اور غریب ممالک میں خلیج بڑھ رہی ہے۔ منی لانڈرنگ کے حوالے سے آگاہی پیدا کر کے ترقی پذیر اور غریب ممالک سے ہونے والی ناانصافی کو روکنا ضروری ہے‘اب یہ بات شدت سے محسوس کی جارہی ہے کہ اس ملک میں رویوں پر اخلاقیات کی گرفت کمزور پڑتی جارہی ہے۔ تعلیم اور کھیلوں کے میدان میں تو شاید ہم اچھے ڈاکٹرز انجینئرز سائنس دان سیاستدان اور کھلاڑی وغیرہ وغیرہ پیدا کر رہے ہیں پر کیا یہ حقیقت نہیں کہ اخلاقیات کے میدان میں ہم روبہ زوال ہیں؟ اب حکومت اور اور دانشوروں پر یہ لازم ہوگیا ہے کہ وہ اس قوم کے اخلاقیات کو سدھارنے پر خصوصی توجہ دیں اور اس ضمن میں اگر کوئی خصوصی منصوبہ ان کے ذہن میں ہو تو اسے عملی شکل دیں اور آخر میں چند سطور موسمیاتی تبدیلیوں کے بارے میں یہ ایک حقیقت ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے گلیشیرز کے پگھلنے کی شرح میں خوفناک اضافہ ہورہا ہے پاکستان پانی کیلئے گلیشیئر پر انحصار کرتا ہے اور ان کے پگھلنے کی شرح میں اضافے سے آبی وسائل کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ حکمران امیر ممالک پر زور دیں کہ وہ کلائمٹ فنانس کی شرح میں اضافہ کرے تاکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے مسائل پر قابو پایا جاسکے یہ بھی ضروری ہے کہ امیر ممالک ان ممالک کی خصوصی مدد کریں جہاں پر کاربن کا اخراج کم ہے۔