طلباء کی چیخ و پکار۔کوئی سنتا بھی ہے؟

ملک کے تعلیمی بورڈ نے میٹرک اور انٹر کے جو نتائج مرتب کرکے جاری کئے ہیں طلباء اور اساتذہ سمیت کوئی بھی حلقہ اور طبقہ ایسا نہ ہوگا  جو اس سے مطمئن ہوگا۔ کل مارکس گیارہ سو تھے یعنی طلباء کو تو اس سے کم نمبر لینے تھے مگر پرنٹ میڈیا کی ایک رپوٹ کے مطابق پنجاب کے بعض بورڈز نے1115 اور1140 نمبر بھی دیئے ہیں میرے خیال میں نمبر دینے والوں نے سوچا ہوگاکہ پوچھنے والا کوئی نہیں بلکہ اب تو طلباء بغیر امتحان کے بھی پاس ہو جاتے ہیں چلئے ہم بھی ڈنڈی مارتے ہیں دیکھتے ہیں کہ اندھے کاوار ہے نشانے پر لگتا ہے یا نہیں؟ مجھے یاد ہے کہ خیبرپختونخوا کے صاحب نشین گورنر نے ایک حکمنامہ جاری کیا تھا کہ کوئی بھی استاد اپنے شاگردوں کے پرچے چیک نہیں کریگا بلکہ ایک کالج یا یونیورسٹی کے پرچے دوسرے کالج یا یونیورسٹی میں مارکنگ کیلئے بھجوائے جائینگے معلوم نہیں کہ یہ حکم عملی بھی ہوا یا محض کاغذات تک محدود رہ کر ریکارڈ کی زینت بنا؟ البتہ مجھے اس کا علم ضرور ہے کہ پشاور یونیورسٹی کے امتحانی پرچوں کی مارکنگ میں شعبہ امتحانات کی سکریسی کے عملے کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا بلکہ سبجیکٹ سپیشلسٹ  اور وہ بھی اکثر ریٹائرڈ اہلکاروں کو سیکریسی بلا کر نہایت رازداری میں خفیہ طور پر ان سے پرچے چیک کئے جاتے ہیں اب معلوم نہیں کہ بورڈ کا طریقہ کار کیا ہے؟ اور مزید برآں یہ کہ گیارہ سو میں گیارہ سو پندرہ اور گیارہ سو چالیس نمبر کیسے دیئے گئے اور کس نے دیئے؟ تو بات کرتے ہیں میڈیکل کے ٹیسٹ میں غیر متوقع طور پر فیل ہونیوالے طلباء کے ا حتجاج کی۔ ان بیچاروں نے کافی احتجاج کیا ریلیاں نکالیں پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کی جگہ پاکستان میڈیکل کونسل کے قیام اور قیام کے طریقہ کار کے خلاف نعرے لگائے اور یہاں تک کہ انتھک دھرنا بھی دیا مگر سننے والا کوئی بھی سامنے نہیں آیا البتہ میڈیا والے تماشائی اور سیاست چمکانے والے ضرور آئے اور ان سب نے نئی میڈیکل کونسل کی تشکیل‘ اس کے زیر اہتمام میڈیکل ٹیسٹ اور اسکے نتائج کو میڈیکل کے طلباء کیساتھ ایک کھلواڑ قرار دیا۔ بورڈ کے حیرت انگیز نتائج کی تحقیق کیلئے تو خیر یہاں ہمارے ہاں صوبائی حکومت نے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی ہے تاہم کمیٹیوں ک کارکردگی کے حوالے سے ہمارا ٹریک ریکارڈ کچھ زیادہ اچھا نہیں،بہر حال خوش قسمتی ہی سمجھ لیں کہ مذکورہ کمیٹی کی سربراہی ایک خاتون کے سپرد کی گئی ہے۔جس سے یہ امکانات روشن نظر آتے ہیں کہ یہ کمیٹی نتیجہ خیز ثابت ہوگی۔  دوسری طرف ممکن ہے کہ میڈیکل کے طلباء کا دھرنا بے سود ثابت ہوکیونکہ آج تک  علاوہ ایک دھرنے کے کسی کا دھرنا تو نتیجہ خیز نہیں ہوسکا۔ اب ایک اور ایک دھرنا میڈیکل کے طلباء کا ہے جس سے کچھ حاصل نہ ہونے پر جماعت اسلامی کا سٹوڈنٹس دستہ تحریک چلانے کیلئے میدان میں اتر آیا دیکھتے ہیں کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟ دھرنا کا ذکر کرتے ہوئے مجھے پشاور یونیورسٹی کے ان سینکڑوں ایڈہاک یا عارضی ملازمین کا دھرنا یاد آتا ہے جنہیں سینکڑوں کی تعداد میں بہ یک جنبش قلم فارغ کردیاگیا اور وہ پھر مہینوں ریلیوں اور دھرنوں میں لگے رہے مگر بیچاروں کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آیا یہ بات اپنی جگہ کہ ان سینکڑوں عارضی ملازمین میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو صرف تنخواہ لینے یونیورسٹی آیا کرتے تھے اور وہ بھی گاڑیوں میں مگر دوسرے سینکڑوں بلکہ تقریباً پانچ سو کے لگ بھگ تو وہ لوگ تھے جو نہایت ضرورت مند اور دو وقت روٹی کمانے کے طلبگار تھے اور جنہوں نے کئی سال اس امید پر کام کیا تھا کہ ملازمت مستقل ہو جائے گی۔