ہر کمالے را زوالے

بھارت میں مودی سرکار سے ارادی یا غیر ارادی طور پر پے در پے ایسی سنگین سیاسی غلطیاں سرزد ہو رہی ہیں کہ جن کی بھارتی جنتا پارٹی کو آئندہ عام انتخابات میں بھاری قیمت ادا کرنی پڑ سکتی ہے ایک طرف تو وہ اپنے اس وزیر کے بیٹے کو گرفتار کرنے میں لیت و لعل کا مظاہرہ کر رہی ہے کہ جس پر یہ الزام ہے کہ اس نے اپنی گاڑی کے نیچے جان بوجھ کے کسانوں کی ریلی کے شرکاء کو روند ڈالا جس سے دو کسانوں کی موت واقع ہوئی تو دوسری طرف اپنی ہی پارٹی کی ممتاز رکن مونیکا گاندھی اور ان کے فرزند کو اس نے پارٹی کی نیشنل ایگزیکٹو کونسل سے اس لئے ہٹادیا کہ انہوں نے کسانوں کی تحریک کی حمایت کی تھی قارئین کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ سابق بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے دو بیٹے تھے بڑے بیٹے کا نام راجیو گاندھی تھا اور دوسرے کا سنجے گاندھی مونیکا گاندھی سنجے گاندھی کی اہلیہ ہیں۔یہ عجیب اتفاق ہے کہ اندرا گاندھی کے دوسرے بیٹے راجیو گاندھی کی بیٹی پرینکا گاندھی کہ جن کا شمار بھارتی کانگرس پارٹی کے ممتاز اراکین میں ہوتا ہے کو بھی مودی سرکار نے کچھ دن پہلے کسان تحریک کی حمایت کرنے پر گرفتار کیا تھا۔ اندرا گاندھی کے دونوں بیٹے پائلٹ تھے سنجے گاندھی تو ایک ہوائی حادثے میں ہلاک ہو گیا تھا جبکہ راجیو گاندھی کو قتل کردیا گیا تھا چونکہ مونیکا گاندھی کے اندرا گاندھی کے ساتھ تعلقات کافی خراب ہوگئے تھے لہٰذا انہوں نے ضد میں آکر بھارتی جنتا پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی اور آج کل وہ اور ان کے بیٹے ورون گاندھی کا شمار بی جے پی کے اہم اراکین میں ہوتا ہے۔ کسی نے بالکل سچ کہا ہے کہ سیاست میں حرف آخر کبھی نہیں ہوتا۔جب سے روسی صدر پیوٹن ماسکو میں برسر اقتدار آئے ہیں ان کی روز اول سے یہ کوشش رہی ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے وہ وسطی ایشیا ء کے ان ممالک سے دوبارہ روس کے تعلقات استوار کریں کہ جو سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد روس سے جدا ہوگئے تھے اور وہ اپنی اس کوشش میں کافی حد تک سردست کامیاب نظر آرہے ہیں اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیں کہ از بکستان اور ترکمنستان کو چھوڑ کر باقی وسطی ایشیا ء کے تقریباً تمام ممالک روس کے ساتھ سکیورٹی پیکٹ میں شامل ہوگئے ہیں۔امریکہ البتہ یہ کوشش کر رہا ہے کہ ازبکستان اور ترکمنستان پر ہاتھ پھیر کر ان دو ممالک کو کم از کم روس کے زیر سایہ نہ آنے دے۔امریکہ کوشاں ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح روس اور چین کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کر کے ان کے اس اتحاد میں رخنہ ڈالے کہ جس کی وجہ سے آج وہ یک جان و دو قالب ہو گئے ہیں۔جہاں تک روس اور چین کے باہمی تعلقات کا تعلق ہے تو اس کی بھی ایک عجیب سی تاریخ ہے دوسری جنگ عظیم کے بعد جب ماو زے تنگ اور ان کے کامریڈ چین میں برسراقتدار آئے تو 1949ء سے لے کر 1980 ء تک سویت یونین اور چین میں کوئی خاص گرمجوشی دکھائی نہ دیتی تھی اس عرصے میں ان دونوں ممالک میں اگر دشمنی نہ تھی تو کوئی زیادہ دوستی بھی نہ تھی ماو زے تنگ کے بعد جو قیادت چین میں بر سر اقتدار آئی اس نے موجودہ زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ محسوس کیا کہ اگر روس کے ساتھ چین کے تعلقات بہتر ہو جاتے ہیں تو یہ دونوں ممالک اپنے مشترکہ دشمن امر یکہ کا ڈٹ کر مقابلہ کرسکتے ہیں۔کچھ اسی قسم کی سوچ روس کے صدر پیوٹن کی بھی ہے جو امریکہ کو سویت یونین کے ٹکڑے کرنے کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے اس ایک ہی قسم کے خیالات نے ماسکو اور بیجنگ کو یکجا کر دیا ہے،کئی سیاسی مبصرین کے مطابق اکیسیویں اور بائیسویں صدیاں  شاید مشترکہ طور پر چین اور روس کی صدیاں ثابت ہو جائیں ہر کمالے را زوالے تاریخ میں کئی تہذیبوں اور سلطنتوں کا ذکر ملتا ہے کہ جو اپنے خبط عظمت کی وجہ سے صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔آج لگتا یہ ہے کہ شاید امریکہ بھی خبط عظمت کا شکار ہو چکاہے جو اس کے زوال کا باعث بن سکتا ہے۔