گزشتہ جمعہ کے روز افغانستان کے صوبے قندوز میں جو بم دھماکا ہوا اور جس کے نتیجے میں درجنوں بے گناہ لوگ مارے گئے اس کے پیچھے ان بیرونی قوتوں کا ہاتھ دکھائی دیتا ہے جو یہ بالکل نہیں چاہتیں کہ افغانستان میں امن قائم ہو بھارت میں کسانوں کی تحریک کی شدت میں کمی نہیں آ رہی بلکہ اتر پردیش میں اگلے روز کسانوں کو جس ظالمانہ انداز میں سرکاری اہلکاروں نے گاڑیوں کے نیچے روند کر ہلاک کیا ہے اس سے حالات مزید گھمبیر ہوتے جا رہے ہیں بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی بالکل اسی پالیسی پر گامزن ہے کہ جس پرماضی کے نسل پرست رہنما چلا کرتے تھے۔ امریکن سی آئی اے کے اشارے پر تائیوان کے حکمران غیر معمولی قسم کی پھرتی کا مظاہرہ کر کے جگہ جگہ چین کے خلاف الٹے سیدھے بیانات دے رہے ہیں جس کے بارے میں ہم تو صرف یہی کہیں گے کہ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربا تائیوان کی چین کے سامنے مثال چیونٹی جیسی ہے امریکہ خود تو اب اتنی سکت نہیں رکھتا کہ براہ راست چین کا عسکری میدان میں مقابلہ کر سکے لہذا اب وہ غیر روایتی حربوں پر اتر آیا ہے اور پروپیگنڈے کے زور پر دنیا میں چین کے خلاف نفرت پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے کئی سیاسی مبصرین کا یہ خیال ہے کہ آج کل روس اور بھارت کے تعلقات اس طرح کے بالکل نہیں رہے کہ جو سابقہ بھارتی حکومتوں کے دور میں ہوا کرتے تھے لہٰذا یہ بڑی عجیب بات لگ رہی ہے کہ بھارت روس سے جدید ترین جنگی سامان خریدنے کیلئے تگ و دو کر رہا ہے سیاسی مبصرین کا یہ خیال ہے کہ ہو سکتا ہے بھارت کی اس کوشش کے پیچھے بھی امریکہ کی کوئی چھپی چال ہو اور وہ یہ چاہتا ہو کہ اگر یہ سودا طے ہو جاتا ہے تو اس سے روس اور چین کے درمیان بد گمانیاں پیدا ہو سکتی ہیں جو ان دو ممالک کے درمیان در اڑ پیدا کردیں گی کیونکہ اس اقدام پر چین روس سے خفا ہو سکتا ہے اور وہ روس سے یہ سوال کر سکتا ہے کہ اس نے اچھی طرح جانتے بوجھتے ہوئے کہ بھارت چین کا دشمن ہے اس پر اسلحہ کیوں فروخت کیا۔امریکہ کی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمن ایک مختصر دورے پر گزشتہ جمعہ کو اسلام آباد تشریف لائیں اور وزارت خارجہ کے اہلکاروں سے ملاقات کے بعد واشنگٹن روانہ ہو گئیں اس دورے کے بعد سیاسی مبصرین اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کیا اس دورے کے بعد اسلام آباد اور واشنگٹن کے مابین سرد مہری میں کمی ہو گی بادی النظر میں تو یہ نظر آتا ہے کہ وزارت خارجہ کے اہلکاروں کے ساتھ ملاقات کے بعد جو بیانات تا دم تحریر دئے گئے ہیں ان کے الفاظ میں گرم جوشی نظر نہیں آتی جزئیات پر تنقیدی نظر رکھنے والے دورے کے مجموعی تاثر میں نتیجہ خیز گرمجوشی کا فقدان محسوس کرتے ہیں تادم تحریر سفارتی ذرائع اس دورے کی تفصیلات بتانے سے گریزاں ہیں‘خطے میں ہونے والی وسیع پیشرفت کے حوالے سے امریکی نائب وزیر خارجہ کا دور ہ نازک وقت پر ہوا ہے جو دور رس نتائج کا حامل ہو سکتا ہے امریکی وزارت خارجہ کے وفد نے اسلام آباد میں شاہ محمود قریشی‘ معید یوسف اور آرمی چیف سے ملاقاتیں کیں۔تاہم وزیراعظم عمران خان سے اس کی ملاقات نہ ہو سکی یاد رہے کہ کچھ عرصہ قبل سی آئی اے کے سربراہ جب پاکستان آئے تھے تو وہ بھی عمران خان سے ملنے کے خواہشمند تھے پر ان پر واضح کر دیا گیا تھا کہ ان کی صرف اپنے ہم منصب سے ملاقات ممکن ہے۔ناقدین نے اس بات کا بھی نوٹس لیا ہے کہ جب امریکی نائب وزیر خارجہ اسلام آباد پہنچیں تو ایک ڈائریکٹر جنرل نے ان کا استقبال کیا جبکہ وزیر خارجہ نے اپنے چیمبر کے باہر ان کا خیرمقدم کیا یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ فی الوقت امریکہ پاکستان سے وسیع البنیاد تعلقات کا متمنی نہیں ہے اور وہ اس خطے میں اب بھارت کو اپنے گماشتے کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے۔