اہم غیرملکی اور ملکی مسائل

قندوز میں گزشتہ جمعہ کے روز داعش خراسان نے جس خودکش دھماکے کی ذمہ داری قبول کی ہے اس کو مختلف زاویوں سے دیکھنے کی ضرورت ہے  قندوز دھماکے کو ماسٹر مائنڈ کرنے والوں نے اس دھماکے سے روس کو بھی ایک مسیج دیا ہے کیونکہ یہ دہشت گردی اس کی سرحد کے قریب واقع علاقے میں ہوئی ہے۔امریکہ اور بھارت دونوں اپنے ان زخموں کو چاٹ رہے ہیں جو ان کو حال ہی میں افغانستان میں لگے ہیں اور وہ اب وہ اپنی خفت مٹانے کیلئے خطے میں بد امنی پھیلانے کی کوشش میں ہیں۔ ادھر چین نے تائیوان کی قیادت کو یہ وارننگ دے کر کھری کھری سنا دی ہے کہ وہ بغیر کسی چوں چراں اور شور و غل کے مین لینڈمیں خوشی بہ رضا رضا کارانہ طور پر شامل ہو جائے ورنہ اس کے موجودہ حکمرانوں کو تاریخ کی کتابوں میں غدار لکھا جائے گا۔ اس ضمن میں چین کے صدر نے اگلے روز جو بیان دیا ہے سیاسی مبصرین کی نظر میں اس کا مطلب یہ ہے کہ چین کی بات پر اگر تائیوان نے کان نہ دھرا تو وہ کسی وقت بھی اسے بزور شمشیر اپنے ساتھ ملا لے گا اور بالکل اسی طرح کہ جس طرح طالبان کابل میں بغیر کسی مقامی مزاحمت کے داخل ہو گئے تھے تائیوان کی مدد کو نہ امریکہ آے گا اور نہ جاپان اور نہ وہاں کے عوام چین کے خلاف اٹھیں گے کہ وہ خود بھی نسلا چینی ہی ہیں اور چین کا ہی ماضی قریب تک ایک حصہ رہے ہیں۔ جس طرح اشرف غنی کی حکومت کو بچانے کوئی نہ آ یا حتی کہ اس کی سرکاری فوج بھی اس کے کام نہ آ ئی۔ اسی قسم کا سلوک تائیوان کی نام نہاد فوج اپنی حکومت کے ساتھ کر سکتی ہے اب آئیے ذراملک کی معاشی صورتحال کے بارے دو چار باتیں ہو جائیں کہ جس سے ہر پاکستانی کی روزمرہ کی زندگی پر اچھا یا برا اثر پڑتا ہے۔2003 تک صورت حال یہ تھی کہ ہم اگر غیر ممالک سے 135 ڈالر کی کوئی امپورٹ کرتے تھے تو اس کے بدلے میں کم از کم100ڈالرز کی ایکسپورٹ بھی کرتے بالفاظ دیگر ہمارا خسارہ بہت کم ہوتا یعنی 25 فیصد جو بیرون ملک سے آنے والی ترسیلات سے پورا ہو جاتا اور اس طرح ہماری برآمدات اور درآمدات میں ایک توازن برقرار تھا اب صورت حال یہ ہے کہ ہر 100 ڈالرز کی ایکسپورٹ کے مقابلے میں ہم 230 ڈالرز کی امپورٹ کر رہے ہیں اور یہ خسارہ نہ تو بیرونی ترسیلات سے پورا ہو سکتا ہے اور نہ بیرونی قرضوں سے۔آپ اس ملک کے کسی بھی بڑے ڈپارٹمنٹل سٹور پر چلے جائیں تو وہاں آپ کو کتوں کے نہانے کیلئے بھی امپورٹڈ شیمپو تک ملتے ہیں یہ اس ملک کا حال ہے کہ جس میں ایک تہائی بچوں کو صحیح خوراک میسر نہیں لہٰذا اس قسم کی فاقہ مستی کو ختم کرنے کیلئے ہر قسم کی کھانے پینے کی چیزوں کی امپورٹ پر پابندی ضروری ہے ان پر ڈیوٹی بڑھانے یا ٹیکس لگانے سے بات نہیں بنے گی۔ہمیں نہ تو نیوزی لینڈ سے سیب منگانے کی ضرورت ہے اور نہ سوئٹزرلینڈ سے چاکلیٹ۔جی ایس ٹی کو 17 فیصد سے کم کر کے 5 فیصد کرنا ہو گا تاکہ انڈسٹری پھلے پھولے اور نوکریوں میں اضافہ ہو ایسا کرنے سے روینیو ضرور کم ہو گا اسے کیسے پورا کیا جائے۔ اسے ایسا پورا کیا جائے کہ غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی لائی جائے۔ دیکھا جائے تو توانائی کا بڑا ذریعہ پٹرول ہم درآمد کرتے ہیں جو ڈالرز سے ملتا ہے اور ڈالرز ایکسپورٹ سے حاصل ہوتے ہیں اور اگر ہمارے کارخانے کام کریں گے تو ان کی پروڈکشن سے سرپلس مصنوعات پیدا ہوں گی جو ایکسپورٹ کی جا سکیں گی۔