جنگ کے بادل

اس خطے کے حالات تیزی سے بگڑ رہے ہیں۔ لداخ وغیرہ کے علاقے کے سرحدی تنازعے پر بھارت کے کور کمانڈر اور چین کی ویسٹرن کمانڈ کے کور کمانڈر کے درمیان گزشتہ چند دنوں سے جو بات چیت ہو رہی تھی وہ ناکام ہو گئی ہے اور ایک رپورٹ کے مطابق چین نے اپنی فوج کا ایک اضافی ڈویژن لداخ وغیرہ کے علاقے میں بھجوا دیا ہے۔ ادھر مقبوضہ کشمیر میں جن بھارتی فوجیوں کو گزشتہ روز نا معلوم افراد نے قتل کیا تھا اس کا الزام بھارت پاکستان پر لگا رہا ہے۔ عمران خان کی اس تجویز میں کافی وزن اور دانائی ہے کہ اگر امریکہ نے موجودہ افغان حکومت کی مالی امداد نہ کی اور اس کو معاشی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے میں اس کا ہاتھ نہ تھاما تو افغانستان داعش کے ہتھے چڑھ سکتا ہے جس سے پھر پاکستان کا امن عامہ بھی تاراج ہو سکتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکہ کی سیاسی قیادت میں اتنی عقل اور فہم ہے کہ وہ پاکستانی وزیراعظم کی اس تجویز کے اندر پنہاں سیاسی فراست اور دور اندیشی کو سمجھ سکے؟ اس وقت تو امریکہ اور بھارت دونوں طالبان کے ہاتھوں خفت اٹھانے کے بعد اپنے زخموں کو چاٹ رہے ہیں سیاسی مبصرین کو تو اس بات کی سمجھ بالکل نہیں آ رہی کہ آخر یہ دونوں ملک کر کیا رہے ہیں۔بھارت کو ذرا دیکھئے ایک طرف وہ چین سے تکرار کی پالیسی پر عمل پیراہے تو دوسری جانب اس سے تجارت بھی کر رہا ہے۔ امریکہ کو دیکھئے، ایک طرف تو افغانستان کو کورونا وائرس کی ویکسین دینے کی بات کرتا ہے تو دوسری جانب وہ طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کرتا اور اس ضمن میں غیر ضروری لیت و لعل کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ وہ منہ پر کچھ کہہ رہا ہے اور اندرون خانہ اس کے بالکل بر عکس پالیسی پر گامزن ہے۔ کئی امریکی دانشوروں کے خیال میں امریکہ کو افغانستان میں جو شکست ہوئی ہے وہ اسے ہضم نہیں کر پا رہا۔ ان کے خیال میں اگر امریکہ نے ایک مرتبہ پھر افغانستان پر جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی تو طالبان اب کی دفعہ امریکہ کے اندر آکر اسے شکست سے دوچار کریں گے۔ طالبان جنگ کو امریکی سرزمین پر لے جائیں گے اور عین ممکن ہیں کہ دنیا کو پھر مزید گیارہ ستمبر جیسے واقعات دیکھنے کو ملیں۔ لہٰذا کسی کو آگے بڑھ کر امریکہ کو سمجھانا چاہئے کہ وہ عقل کے ناخن لے بنیادی طور پر تو یہ کام اقوام متحدہ کا ہے پر یہ بین الاقوامی ادارہ تو ایک عرصے سے صرف ڈیبیٹنگ کلب debating club بن چکا ہے اور عالمی طاقتیں اس کی کسی بات کو در خور اعتنا سمجھتی ہی نہیں۔ لے دے کے اب امریکی عوام ہی رہ گئے ہیں کہ جو اپنے حکمرانوں کو کسی مزید حماقت کرنے سے باز رکھ سکتے ہیں۔ دنیا میں جو لوگ امن کے پجاری ہیں وہ افغانستان میں ایک اور کشمکش شروع ہوتے دیکھ رہے ہیں اور وہ اس بات پر بھی سخت فکرمندہیں کہ اسرائیل اور فلسطین‘ چین کا جنوبی سمندر‘ تائیوان‘ یوکرائن اور کشمیر میں بگڑتی ہوئی صورتحال یہ سب ایسے مقامات ہیں کہ جو اس وقت سلگ رہے ہیں اور جو کسی وقت بھی جوالا مکھی میں تبدیل ہو سکتے ہیں اور اس سے پوری دنیا کاامن متاثر ہو سکتا ہے۔