جامعہ پشاور کی ایک اصلاحی مہم

 پروفیسر ڈاکٹر مختار احمد بڑے دلچسپ آدمی اور بہترین مقرر یا سپیکر ہیں انتظامی صلاحیتوں اور ایک منجھے ہوئے معلم کے طورپر بھی موصوف میں کوئی کمی محسوس نہیں کی جا سکتی اعلیٰ تعلیمی کمیشن کی چیئرمین شپ کے دور بسا اوقات یونیورسٹی کیمپس کے دورے پر آیا کرتے تھے اسی دوران ایریا سٹڈی سنٹر میں ایک سیمینار کے خصوصی مقرر یا کی نوٹ سپیکر تھے غالباً سیمینار کاموضوع”تعلیم کا مقصد اورآ ج کی تعلیم“ تھا موصوف نے تقریر کے دوران ملٹی میڈیا پر ایک کارٹون بھی پیش کیا جس میں دو خیمے نظر آرہے تھے ایک پر لکھا تھا گھر اور دوسرے پر لکھا تھا مدرسہ سکول یا کالج یونیورسٹی وغیرہ پہلے خیمے سے دو بچے بھاری بھر کم بستے اپنے اوپر لادے ہوئے نکلتے ہیں جبکہ تعلیمی ادارے والے خیمے سے وہی بچے قدرے بڑے ہو کر یعنی وہاں کی تعلیم سے فارغ ہو کر عجیب سی شکل میں نکلتے ہوئے دکھائے گئے تھے کارٹون نہایت دلچسپ تھا حاضرین ہنس پڑے لیکن درحقیقت تھا بڑا سبق آموز‘ یہی وجہ تھی کہ راقم نے اس پر اس وقت بھی کچھ لکھا تھا ڈاکٹرصاحب سے بالمشافہ ملاقات میں خراج تحسین پیش کیا تھا اور آج پھر کافی مدت کے بعد تیسری بار اس بامقصد کارٹون کے حوالے سے ڈاکٹر مختار کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں اس تہمید کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ ابھی حال ہی میں جامعہ پشاور کے تین ریسرچ سنٹروں نے ملکر پیغام پاکستان کے نام سے ایک مشترکہ اصلاحی مہم کا آغاز کردیا ہے جس میں پاکستان سٹڈی سنٹر کے پروفیسر ڈاکٹر فخرالاسلام‘شیخ زید اسلامک سنٹر کے پروفیسر ڈاکٹر رشاد احمد سلجوق اور ایریا سٹڈی سنٹر کے پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خان قائدین کا کردار ادا کر رہے ہیں تینوں سینئر اساتذہ کا بحیثیت منتظمین یہ عزم ہے کہ وہ سال 2017ء میں اس وقت کے صدر مملکت مرحوم ممنون حسین کی زیر صدارت ملک بھر کے تمام مسالک اور مکاتب فکر کے علماء کرام کے پیغام پاکستان کے نام سے ہونیوالی کانفرنس کے ایجنڈے‘ مقصد اور اعلامیہ کو عملی شکل دینے کی کوشش یا مشترکہ سعی کرینگے ڈائریکٹرز صاحبان کی اس ابتداء اور عزم کے تناظر یہ نکتہ قابل غور ہوگا کہ اصلاح یعنی تبدیلی لانے کے عمل کا آغاز سب سے پہلے اپنی ذات‘ اپنے خاندان اور اپنے اردگرد سے ہونا چاہئے مطلب یہ کہ نہایت ہی محترم اساتذہ صاحبان سے پہلے یہ کوشش کریں کہ تعلیم بامقصد ہو جائے اور یونیورسٹی کے ماحول سے مغربی کلچر کی نشانیاں اور علامات مٹنے کیساتھ ساتھ یونیفارم اور ایس او پیز یعنی احتیاطی تدابیر پر عملدرآمد یقینی ہو سکے۔صفائی گراؤنڈ اینڈ گارڈن اور ٹریفک کا ایک موثر نظام قائم ہو اور کیمپس سے شوروغل دھوئیں‘ ہلڑبازی سکریچنگ‘ون ویلنگ‘ پریشر ہارن جیسی قبیح حرکات کا خاتمہ ہو جائے یعنی یونیورسٹی کیمپس کا ماحول جی ٹی روڈ اور بازار کا ماحول بننے سے محفوظ ہو سکے اور ساتھ ہی اساتذہ کرام کی تمام تر توجہ طلباء کی کردار سازی پر مرکوز ہو تو میرے نزدیک یہ کام اور یہ مشن اس کوشش سے کہیں بڑا ہوگا جس کا آغاز ان تین سنٹروں نے مل کر کیا ہے ہمارے ان بزرگوں کو یادہوگا کہ آج ڈیڑھ دو عشرے قبل یونیورسٹی کیمپس میں جون جولائی میں باہر کے مقابلے میں درجہ حرارت تین چار درجے کم ہوا کرتا تھا مگر اب اگر محترم اساتذہ کرام قدرے اندازہ لگا کر موازنہ کریں تو کسی بھی بس اڈے اور یونیورسٹی کیمپس کے درجہ حرارت میں کوئی فرق نہیں ہوگا محترم اساتذہ کرام پیغام پاکستان یا استحکام پاکستان کے نام سے جس مقصد کیلئے یکجا ہو کر کچھ کرنے کا عزم رکھتے ہیں اس میں اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں کیونکہ پاکستان ہم سے ہے اور ہم پاکستان سے ہیں لیکن اس عظیم مقصد کے حصول کی تگ ودو کیساتھ ساتھ اپنی تعلیم‘ اپنی یونیورسٹی‘ اپنے ماحول‘ اپنے طلباء اور اس ضمن میں اصلاح اور تبدیلی کی کوششوں میں کوئی کمی اور کس طرح کوتاہی نہیں ہونی چاہئے کیونکہ یونیورسٹی کیمپس میں اصلاح کی جو ضرورت اس وقت محسوس کی جارہی ہے شاید اس سے قبل نہیں تھی۔