دنیا بدل رہی ہے 

تیسری دنیا کے کئی ملکوں کا یہ المیہ رہا ہے کہ وہاں جب بھی عام انتخابات ہوئے ہارنے والی پارٹی نے جیتنے والی پارٹی پر دھاندلی کا الزام ضرور لگایا بھلے اس نے دھاندلی کی یا نہیں۔ اگلے روز عراق میں بھی یہی کچھ ہوا وہاں بھی ہارنے والی پارٹی نے الیکشن جیتنے والی پارٹی پر دھاندلی کا الزام لگایا ہے۔اس الیکشن میں جس سیاسی گروپ نے قدرے کم نشستیں جیتی ہیں اور اس کے مقابلے میں اس کے مخالف گروپ جس کی قیادت ممتاز شیعہ لیڈر مقتدا الصدر کر رہے ہیں نے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں۔ ایران کے اس فیصلے کو اس خطے کے سیاسی مبصرین نے بے حد سراہا ہے کہ جس میں اس نے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ وہ بہت جلد افغانستان اور اس کے ہمسایہ ممالک کے رہنماؤں کا ایک مشترکہ اجلاس ایران میں منعقد کر رہا ہے جس میں پاکستان کے علاوہ وہ افغانستان کے ساتھ وسطی ایشیا کے جتنے ممالک کی سرحدات ملتی ہیں ان سب کے رہنماؤں کو شمولیت کی دعوت دے گا۔ ادھر یہ خوشی کی بات ہے کہ طالبان کی حکومت کے نمائندے ازخود دنیا بھر میں سیاسی طور پر کافی متحرک نظر آ رہے ہیں اور ان کے وفود جگہ جگہ بیرونی ممالک کے رہنماؤں سے افغانستان کی تعمیر و ترقی کیلئے ان کی ممکنہ امداد کے بارے میں گفت و شنید کر رہے ہیں۔ اس قسم کی گفتگو شنید اور سفارتی کوششوں کے نتیجے میں یورپی یونین نے افغانستان کا امدادی پیکج ایک ارب یورو تک بڑھا دیا ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق یورپی یونین افغان امدادی پیکج کیلئے مزید 700 ملین یورو جاری کرے گی۔ یورپی یونین اس سے پہلے افغانستان کیلئے 3 سو ملین یورو امداد کا اعلان کر چکی ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ افغانستان کے عوام کی اقتصادی صورت حال کو بہتر بنانے کیلئے امریکہ کس قدر مخلص اور سنجیدہ ہے کیونکہ اگر ماضی کے تجربات کی روشنی میں دیکھا جائے تو اس ضمن میں امید کی کوئی کرن دکھائی نہیں دے رہی۔قارئین کو یاد ہوگا کہ1980  کی دہائی میں سوویت یونین کے تسلط سے افغانستان کو آزاد کرانے کیلئے امریکہ نے افغان مجاہدین کی پس پردہ بے پناہ مالی اور فوجی سامان کی فراہمی کی شکل میں امداد کی تھی کئی لوگوں کا تو اس وقت بھی یہی خیال تھا کہ امریکہ کو افغانیوں سے کوئی خاص محبت نہیں ہے بلکہ وہ تو سوویت یونین سے بدلہ لے رہا ہے کیونکہ چند سال قبل ویت نام میں امریکہ کو ویت کانگ کے ہاتھوں جو شکست ہوئی تھی اس میں اس وقت کے سوویت یونین کا بڑا ہاتھ تھا جس نے دل کھول کر ویت کانگ کی عسکری امداد کی تھی۔ جب سوویت یونین نے افغانستان پر 1980 کی دہاہی میں چڑھائی کی تو اس وقت افغانیوں کے دلوں میں روس کے خلاف جو نفرت پیدا ہو چکی تھی اس کو امریکہ نے کیش کیا اور اس سے فائدہ اٹھا کر افغان مجاہدین کی سویت یونین کے خلاف مسلح جدوجہد میں ان کا بھرپور ساتھ دیا دراصل اس واقعہ کے چند برس قبل امریکہ کو ویت نام کے ہاتھوں جو عبرتناک شکست ہوئی تھی وہ اس کا ماسکو سے بدلہ لینا چاہتا تھا یاد رہے کہ امریکیوں کو ویتنام سے باہر دھکیلنے میں ماسکو نے ویت نام کا بھرپور ساتھ دیا تھا اور روس کی مدد کے بغیر شاید ویتنامی امریکی فوجیوں کو اپنے ملک سے باہر نکالنے میں کامیاب نہ ہوتے۔جس وقت افغانستان سے سوویت یونین کے فوجی افغان مجاہدین کے ہاتھوں شکست کھا کر واپس پسپا ہو رہے تھے اور افغانستان روسیوں کے تسلط سے آزاد ہوگیا تھا تو اس وقت افغان مجاہدین اور سوویت یونین کے درمیان لمبی جنگ کے نتیجے میں افغانستان کا فزیکل انفراسٹرکچر تباہ حال ہو چکا تھا وہ مناسب وقت تھا اگر امریکہ اس وقت افغانستان کے فزیکل انفراسٹرکچر کی بحالی کیلئے افغانستان کی بے پناہ امداد کرتا۔ اگر وہ ایسا کرتا تو یقینا وہ افغانیوں کے دلوں میں اپنے لیے ایک مستقل گھر بنا لیتا کیونکہ اس وقت افغانیوں کے دلوں میں امریکیوں کیلئے محبت کا جذبہ موجزن تھا کیونکہ افغانستان امریکہ کی مدد سے ہی روسی فوج کے تسلط سے آزاد ہوا تھا پر امریکہ نے وہ نادر موقعہ گنوا دیا اور پھر افغانستان کی طرف مڑ کر نہ دیکھا اور اپنی آنکھیں بدل لیں آج حالات نے اسے پھر ایک موقع فراہم کیا ہے آج لمبی جنگ کے پیش نظر افغانستان پھر تباہ حال ہے اس کو بحال کرنے کیلئے ایک بڑے ترقیاتی امدادی پیکج کی ضرورت ہے جو امریکہ اگر چاہے تو اسے فراہم کر سکتا ہے ایسا کرنے سے ایک مرتبہ پھر وہ افغانستان کا دل جیت سکتا ہے اور اپنی پرانی غلطیوں کا ازالہ کر سکتا ہے پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ اس تاریخی فیصلے کی طرف قدم اٹھاے گا؟ اور دیکھا جائے تو اس وقت عالمی برادری پر اگر افغانستان میں امن کے قیام اور یہاں پر معاشی ڈھانچے کی تشکیل کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے تو امریکہ کو اس میں زیادہ حصہ ڈالنا چاہئے کیونکہ افغانستان میں جو تباہی ہوئی ہے اور یہاں پر بنیادی ڈھانچے کو جو نقصان پہنچا ہے تو اس کا ذمہ دار براہ راست امریکہ ہے ماضی میں اس نے افغانستان میں نظرانداز کرکے جو غلطی کی اس کا خمیازہ اسے 9/11 کی شکل میں بھگتنا پڑا اور اب اگر دوبارہ وہی غلطی دہرائی تو یقینا اس کے نتائج بھی کچھ زیادہ اچھے نہیں ہوں گے اس لئے ضروری ہے کہ اب امریکہ افغانستان کے معاملے کو بھارت کی نظر سے نہ دیکھے اور اپنی غلطی کا ازالہ کرے۔