پاکستان کے اعلیٰ ترین ریاستی حکام نے ستمبر2021ء کے دوران بعض ناقابل تردید شواہد کے ساتھ ایک پریس بریفنگ کے دوران انکشاف کیا کہ بھارت شدت تنظیم داعش خراسان اور بعض دیگر کو بھارت سمیت متعدد دوسرے علاقوں میں نہ صرف فنڈنگ کر رہا ہے بلکہ اسکے ارکان کو ٹریننگ بھی دے رہا ہے بھارت نے ان شواہد کا کوئی ٹھوس جواب دینے کی بجائے طالبان کی حمایت کا پرانا بیانیہ دہرا کر عالمی برادری کی توجہ ہٹانے کی کوشش کی تاہم عالمی میڈیا نے بھارت کی انٹیلی جنس ایجنسی”را“ کے کردار پر متعدد سوالات اٹھائے جبکہ افغانستان میں اسکے کردارپر بھی بحث کی گئی بھارت را کے ذریعے جہاں پاکستان بالخصوص خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں شدت پسند اور علیحدگی پسند قوتوں کی کھل کر سرپرستی اور فنڈنگ کرتا آرہا ہے وہاں یہ ادارہ 70 کی دہائی سے افغان سرزمین بھی پاکستان مخالف قوتوں کے ساتھ ملکر استعمال کرتا آرہا ہے را کے ایک اہم سابق آفیسر اور تجزیہ کار آر کے یادیو نے اپنی مشہور زمانہ کتاب”مشن را“ میں 70 اور80 کی دہائیوں کے دوران افغانستان کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی نہ صرف تفصیلات بیان کی ہیں بلکہ بعض شواہد اورتاریخی حوالوں سے یہ بھی بتایا ہے کہ را افغانستان کے حکمرانوں کے ساتھ ملکر پاکستان میں علیحدگی پسند تحاریک کی سرپرستی کرتا رہا۔1979-80ء کے دوران جب سوویت یونین کی آشیرباد سے کابل میں ”انقلاب ثور“ کے نام سے سردار داؤد خان کا تختہ الٹ دیاگیا تو نئے افغان حکمرانوں نے مقامی مخالفین اور پاکستان جیسے پڑوسیوں سے نمٹنے کیلئے ”خاد“ کے نام سے خفیہ ایجنسی قائم کی جسکے نہ صرف یہ کہ بھارت کیساتھ قریبی رابطے قائم کئے گئے بلکہ اس ادارے کی ٹریننگ میں سوویت ادارے کے جی بی کے علاوہ را نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ خاد نے80کی دہائی میں پاکستان خصوصاً پختونخوا اور بلوچستان میں سینکڑوں افراد کو موت کے گھاٹ اتارا۔سابق افغان صدر سردار داؤد خان نے بوجوہ آزاد پختونستان تحریک کی کھل کر سرپرستی کی تو کمیونسٹ صدرڈاکٹر نجیب اللہ نے خاد کے سربراہ کی حیثیت سے متعدد کاروائیاں کروا کر علیحدگی پسند عناصر کی فنڈنگ کی اور یہ سلسلہ انکے دور صدارت کے دوران مزید تیز ہوگیا اس تمام عرصہ کے دوران را‘ اور کے جی بی کے درمیان کوآرڈی نیشن اور کوآپریشن کا مربوط اور مستقل نظام قائم رہا اور یہ سلسلہ سال1996 کے کابل میں افغان طالبان کے داخلے اور حکومت پر قبضے تک جاری رہا۔یاد رہے کہ70 کی دہائی کے اوائل تک پاکستان کے پاس ایسا کوئی موثر خفیہ ادارہ موجود نہیں تھا جسکے ذریعے اس سہ فریقی اتحاد کو توڑا جاتا یا کاؤنٹر پالیسی بنائی جاتی بھٹو صاحب ہی نے افغانستان ے عزائم اور بھارت افغان گٹھ جوڑ کی توڑ کیلئے آئی ایس آئی کو فعال بنایا اور اسکے نتیجے میں کوشش کی گئی کہ پاکستان کو اس اتحادسے محفوظ بنایا جا سکے۔یہ پاکستان کی مجبوری کہلائی جاسکتی ہے شوق نہیں‘ آئی ایس آئی اسلام آباد کے سابق سٹیشن انچارج میجر(ر) محمد عامر نے اس ضمن میں رابطے پر بتایا کہ افغانستان میں روسی داخلے کے فوراً بعد جب جنرل ضیاء الحق آئی ایس آئی کے ہیڈکوارٹر آئے تو یہ جان کر ان کو بڑی حیرت ہوئی کہ وہاں پر افغانستان کا نقشہ بھی نہیں تھا انکے مطابق خاد را کے ساتھ ملکر افغانستان میں بلوچ اور پشتون علیحدگی پسندوں کے ایک درجن سے زائدٹریننگ کیمپس چلا رہی تھی تاہم افغان جہاد کے دوران جب پاکستان کو خطرات لاحق ہوگئے تو ہمارے اداروں نے دوسرے اقدامات کے علاوہ ان کیمپوں کا بھی خاتمہ کیا سال1996ء سے لیکر2002ء تک افغان طالبان کی حکومت کے باعث پاکستان را اور دیگر کی سرگرمیوں اور حملوں سے بچا رہا اور غالباً یہی وجہ تھی کہ پاکستان اپنی سیکورٹی کے تناظر میں طالبان کی حمایت کرتا رہا جس کو افغانستان میں مداخلت کا نام دیا گیا نائن الیون کے بعد جب حامد کرزئی امریکہ اور پاکستان کی آشیرباد سے برسراقتدار آئے تو چند ماہ بعد70 اور80 کی دہائیوں والا سلسلہ پھر شروع ہوا اب کے بار خاد کی بجائے این ڈی ایس کے نام سے نیا خفیہ ادارہ قائم کیا گیا جبکہ اس دفعہ جو اتحاد سامنے آیا اس میں این ڈی ایس را اور سی آئی اے کے علاوہ موساد بھی شامل تھا امر اللہ صالح سمیت این ڈی ایس کے جتنے بھی سربراہ2021ء تک رہے ان میں پاکستان کی مخالفت اور بھارت کی کھل کر حمایت قدر مشترک تھی اور اس چیز نے جہاں بھارت کی را کو کھل کر کھیلنے کا موقع فراہم کیا وہاں ممکنہ حد تک پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچایا گیا تاہم اب صورتحال یکسر تبدیل ہوگئی ہے اب کے بار جہاں پھر سے افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف کھل کر حملوں کیلئے استعمال کیا گیا وہاں پاکستان کیخلاف ففتھ جنریشن وار اور ہائیبرڈ وارفیئر کے ذریعے کوشش کی گئی کہ افغانستان اور خطے کی بدامنی اور مجموعی کشیدگی کی ذمہ داری پاکستان پر ڈال کر اسے بدنام اور تنہا کیا جائے۔ پرسیپشن مینجمنٹ کے ذریعے میڈیا اور اپنے حامیوں کا مسلسل استعمال کر کے اسکے باوجود پاکستان کو دہشت گردی کا سرپرست قرار دینے کی عالمی سطح پر کوشش کی گئی کہ پاکستان کی فورسز کے10ہزار جوانوں سمیت اسکے تقریباً ایک لاکھ شہری 2001ء کے بعد خود دہشت گردی کا شکار ہوچکے تھے 2001ء کے بعد افغانستان کے اندر را اور این ڈی ایس نے جس منظم طریقے سے پاکستان پر تمام خرابیوں کا ملبہ ڈالنے کی مہم چلائی اور دیگر ممالک تک بھی پھیلائی گئی حالانکہ اس عرصہ کے دوران اقوام متحدہ اور امریکہ نے خود انکشاف کیا کہ افغانستان کی سرزمین ٹی ٹی پی کے5000 حملہ آوروں کے علاوہ بعض دیگر کے ہاتھوں بھی پاکستان کے خلاف استعمال ہوتی رہی امر اللہ صالح نے سال2021ء کے دوران بطور نائب صدر پاکستان کے خلاف جو مہم چلائی اس کو را کی مسلسل سرپرستی حاصل رہی اور بعض بھارتی اخبارات نے خود یہ رپورٹس شائع کیں کہ این ڈی ایس اور را کی پالیسیاں امر اللہ صالح کی سرپرستی میں پاکستان کیلئے مشکلات پیدا کرتی آئی ہیں اس دوران یہ لوگ عسکریت پسند تنظیموں کی سرپرستی کرتے رہے 15اگست کے بعد امر اللہ صالح کے افغان اور غیر افغان حامیوں نے جہاں ان کو مزاحمت کی علامت قرار دیکر ایک ہیرو کے طورپر پیش کرنے کی پالیسی اپنائی وہاں را اور انڈین میڈیا نے فاتح بن کر کابل پہنچنے والے طالبان کو پاکستان کی پراکسی قرار دینے کی کوشش کرکے عالمی برادری کو گمراہ کرنے کی عجیب و غریب ہتھکنڈے استعمال کرنے کی نت نئی مثالیں قائم کیں تاہم ان کو جگ ہنسائی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں لگا اور پاکستان را‘ دیگر کی اتنی سرمایہ کاری کے باوجود عالمی توجہ کے علاوہ مجبوری کا مرکز بنا رہا کیونکہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان کی افغان پالیسی نہ صرف حقیقت پسندانہ ثابت ہوئی بلکہ پاکستان نے امن اور عالمی انخلاء کیلئے جو روڈ میپ کئی برس قبل دیا تھا وہ بھی درست اور قابل عمل قرار پایا کئی بار پاکستان نے ماضی کی بعض غلطیوں سے سیکھتے ہوئے افغانستان کے نمائندہ نان پشتون رہنماؤں کو پروٹوکول اور مینڈیٹ سے نواز کر را سے اس کا ایک اہم کارڈ بھی چھین لیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ15اگست کے طالبان داخلے کے بعد ماضی کی طرح نہ تو کوئی مزاحمت نظر آئی اور نہ ہی طالبان نے تشدد کاراستہ اپنایا اسکے باوجود بھارت اپنی ڈپریشن کا شکار بنا رہا اور اسکے میڈیا اور تجزیہ کاروں کے علاوہ سابق جرنیلوں اور سیاستدانوں نے بھارتی پالیسی اور سرمایہ کاری کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اگرچہ فی الوقت حالات کنٹرول میں ہیں اورپاکستان ماضی کے مقابلے میں کافی بہتر پوزیشن میں ہے اسکے باوجود خطے میں پاکستان مخالف سرگرمیوں اور کوششوں پر کڑی نظر رکھنی ہوگی۔