اپنے حال کو بہتر بنانے کے لئے اور مستقبل کیلئے صحیح راہ متعین کرنے کے واسطے تاریخ کا مطالعہ نہایت ضروری ہے کہ اس سے انسان کسی لغزش کا شکار ہونے سے بچتاہے‘معلومات میں وقت کے ساتھ اضافہ ہوتا رہتا ہے‘ پر دانش وقت کے ساتھ شاذ ہی زیادہ ہوتی ہے بچے اور بیوقوف سچ بولتے ہیں اور انہیں اپنے اخلاص میں خوشی محسوس ہوتی ہے‘زندگی کا المیہ یہ ہے کہ یہ آپ کو دانائی سے اس وقت آشنا کرتی ہے کہ جب اس نے آپ سے آپ کی جوانی چرا لی ہوتی ہے‘تاریخ میں صرف ایک شے امر ہے اور وہ ہے زوال اور زندگی میں صرف ایک چیز حتمی ہے اور وہ ہے موت‘ زندگی ایک گورکھ دھندہ ہے‘ایک نہ سمجھ آنے والی پہیلی ابتدائے آفرینش سے لے کر آج تک یہ دنیا انتشار کا شکار رہی ہے‘زمانہ قدیم میں پتھروں سے لڑائیاں اور جنگیں ہوا کرتی تھی‘ اٹھارہ سو تیس میں فرانس کے ایک کسٹم آفیسر کو وادی سوم میں چقماق ملا تھا جو پتھروں کی ایک قسم ہے اس سے پتھر کے زمانے میں آج سے پچاس ہزار سال قبل یورپ میں جنگیں ہوتی تھیں جس میں سینکڑوں لوگ ہلاک ہو جایا کرتے تھے‘پہلی اور دوسری عالمگیر جنگوں میں جدید اسلحہ کے استعمال سے دس ہزار افراد روزانہ لقمہ اجل ہوئے تھے‘گزشتہ پانچ سو صدیوں میں دو ہزار انسانی نسلوں نے آپس میں جنگیں لڑیں جن کا آغاز بھی اتنا ہی غیر واضح تھا کہ جتنا ان کا انجام تاریخ کی کتابیں مصر‘بابل‘عراق‘یونان‘روم‘سپین‘برطانوی‘امریکی‘فرانسیسی اور روسی جنگوں میں کام آنے والے لوگوں سے بھری پڑی ہیں ان جنگوں کی وجوہات نفسیاتی بھی تھیں‘معاشی بھی اور سیاسی بھی‘ زیادہ سے زیادہ اراضی کے حصول کی ہوس ان کی ایک وجہ تھی‘ قدیم یونانی کالا سمندر کے کنٹرول کے لئے لڑے‘روم کو مصر اس لئے فتح کرنا تھا کہ اسے گندم درکار تھی اور ایشیاء کو مفتوح بنانا اس لئے مقصود تھا کہ اسے اپنی ہینڈی کرافٹسز کے لئے منڈیاں چاہئے تھیں دولت کی ہوس ایک ایسا مرض ہے جو انسان کو ذہنی سکون اور روحانی مسرتوں سے محروم کر دیتا ہے‘تمام خرابیوں کی جڑ ذاتی ملکیت بالخصوص زمین اور اس کی پیداوار ہے جہاں ایک مخصوص طبقے کی املاک ذاتی ہو‘ جہاں انسانیت کا معیار روپے ہو وہاں یہ بات قریب قریب ناممکن ہے کہ عوام پر انصاف سے حکومت کی جائے اور وہ خوشحال اور آسودہ ہوں جب تک ذاتی ملکیت کا رواج رہتا ہے آبادی کی غالب اکثریت جو انسانیت کا بہترین جز ہے افلاس اور بھوک پر مجبور ہو گی‘ مشہور جہاز راں امیر گوداس پوچی کا 1507 میں ایک سفر نامہ شائع ہوا ہے‘اس نے اپنی کتاب میں بعض ہندوستانی قبیلوں کے بارے میں لکھا ہے وہ لکھتا ہے کہ وہ سونے موتی اور جواہرات سے نفرت کرتے تھے‘ان کا سب سے قیمتی اثاثہ چڑیوں کے رنگ برنگے پر تھے‘وہ نہ تو کچھ بیچتے ہیں اور نہ خریدتے اور نہ چیزوں کا تبادلہ کرتے بلکہ قدرت نے جو چیز انہیں مفت عطا کی ہوتی اس پر قناعت کرتے‘ان کی زندگی بالکل آزاد تھی وہاں نہ کوئی بادشاہ تھا اور نہ کوئی آ قا اور ان کے پاس نہ کوئی قانون تھا اور نہ کوئی ضابطہ‘وہ مشترکہ طور پر ایک ساتھ رہتے تھے اب بھی دیر نہیں ہوئی ہے اگر ذاتی ملکیت کی تنسیخ کردی جائے تو نہ کوئی چوری کرے گا نہ قتل‘ کئی مفکروں کا یہ خیال ہے کہ ذاتی استعمال کی چیزوں کے علاوہ تمام چیزیں ریاست کی ملکیت قرار دے دی جائیں اور ہر شخص کو ریاست روزگار فراہم کرے اور اس کے اخراجات کی کفیل ہو۔