ماو زے تنگ نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ تبت کی مثال ان کے دائیں ہاتھ کی ہتھیلی جیسی ہے جبکہ سکم‘ارونا چل پردیش‘ نیپال‘ بھوٹان اور لداخ کی مثال ان کے دائیں ہاتھ کی پانچ انگلیوں جیسی ہے۔ بالفاظ دیگر چین تین بھارتی ریاستوں لداخ سکم اور ارونا چل پردیش کو اپنا علاقہ گردانتا ہے اور یہی وجہ کہ گزشتہ روز جب بھارت کے نائب صدر نے اروناچل پردیش کا دورہ کیا کہ جو ان کا آ بائی علاقہ ہے تو چین نے یہ کہہ کر اس پر سخت اعتراض کیا کہ ان کو اس علاقے کا دورہ چین کی اجازت کے بغیر نہیں کرنا چاہئے تھا کیونکہ یہ علاقہ تو چین کا ہے۔ اس سے قارئین اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بھارت اور چین کے درمیان حالات کس ڈگر پر جا رہے ہیں۔ ادھر روس کے صدر پیوٹن کا یہ بیان بھی بڑا معنی خیز ہے جو انہوں نے سی این این کو ایک انٹرویو میں دیا ہے کہ چین کو تائیوان میں ایک بھی گولی چلانے کی ضرورت نہیں ہے وہ خودہی اس کی گود میں آ گرے گا۔ان دو واقعات کا ذکر ہم نے اس لئے کیا ہے کہ ایک طرف چین اور بھارت جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں تو دوسری جانب چین اور امریکہ کے درمیان بھی محاز آ رائی دن بہ دن زیادہ ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ افغانستان کے بارے میں البتہ دو تین باتیں حوصلہ افزا ہیں ایک تو یہ کہ طالبان نے سفارت کاری کے ذریعے کافی حد تک اپنے تعلقات ترکی اور اس خطے کے دوسرے ممالک یعنی ایران اور وسطی ایشیا کے تقریبا تمام ممالک کے ساتھ استوار کر لیے ہیں اور آئندہ چند روز میں ایران اور روس میں ان ممالک کا افغانستان کے وفود کے ساتھ جو اعلی سطح کی کانفرنسوں کا انعقاد ہو رہا ہے ان سے اس بات کا عندیہ ملتا ہے کہ افغانستان کے تمام ہمسایہ ممالک کو اس بات کا ادراک ہے کہ افغانستان میں امن ان سب کیلئے کس قدر اہم ہے۔ امریکہ وسطی ایشیا میں شرارت کیلئے ازبکستان میں فوجی اڈے بنانے کا ارادہ رکھتا ہے پر روس نے یہ کہہ کر اس کے اس ارادے پر پانی پھیر دیا ہے کہ وہ کسی صورت بھی اسے ایسا کرنے نہیں دے گا اس معاملے میں چین بھی روس کے شانہ بشانہ کھڑا ہے کیونکہ امریکہ کی نئی گیم یہ ہے کہ کسی نہ کسی حربے سے چین کے نزدیک کسی ملک میں قدم جما کر وہاں سے چین کے اندر شر پھیلایا جائے اور اس ضمن میں وہ مختلف آ پشنز پر بیک وقت کام کر رہا ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو اس معاملے میں پاکستان نے صاف کہہ دیا ہے کہ وہ کسی بھی جنگ کا حصہ اب نہیں بنے گا۔ہم نے اس خطے میں چین اور روس دونوں سے بنا کر رکھنی ہوگی کیونکہ صرف ایسا کر کے ہی ہم اس ملک کا مستقبل محفوظ کر سکیں گے۔ سوویت یونین کے زوال کی یقینا اور بھی کئی وجوہات ہوں گی پر 1970 کے بعد ایک لمبے عرصے تک اس کی سیاسی قیادت میں معیار کا کافی فقدان تھا جس کی وجہ سے سویت یونین کی معاشی اور سیاسی پالیسیا ں بدلتے وقتوں کے ساتھ ہم آہنگی نہ رکھ سکیں جس کا پھر امریکی سی آئی اے نے اس کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے میں بھرپور فائدہ اٹھایا ایک لمبے عرصے کے بعد روس میں پیوٹن کی شکل میں ایک قوم پرست لیڈر بر سر اقتدار آیا ہے جو روس کے دوبارہ سپر پاور کی حیثیت سے کردار ادا کرنے کیلئے دن رات کام کر رہا ہے جس کی وجہ سے روس بین الاقوامی سیاست میں ایک مرتبہ پھر اُبھر رہا ہے۔یہ پیوٹن کی دانشمندی ہے کہ اس نے چین کے ساتھ بنا کر رکھی ہوئی ہے اور کئی عالمی مسائل کے بارے میں ان دونوں کی سوچ میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے ماضی میں تو ایک لمبے عرصے تک یعنی 1949 سے لے کر 2010 تک چین کی قیادت کا یہ وطیرہ تھا کہ سر دست صرف اور صرف چین کی معیشت کی طرف دھیان دیا جائے اور اس کو سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے لایا جائے اور غیر ملکی تنازعات کو حل کرنے کیلئے مناسب وقت کا انتظار کیا جائے۔
اشتہار
مقبول خبریں
پشاور کے پرانے اخبارات اور صحافی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سٹریٹ کرائمز کے تدارک کی ضرورت
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
فرسودہ فائر بریگیڈ سسٹم
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
معیشت کی بحالی کے آثار
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
فوجداری اور ریونیو مقدمات
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
ممنوعہ بور کے اسلحہ سے گلو خلاصی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکہ کی سیاسی پارٹیاں
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سعودی عرب کی پاکستان میں سرمایہ کاری
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکی پالیسی میں تبدیلی؟
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سموگ کا غلبہ
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ