خلفشار کی شکار دنیا

امریکن سی آئی اے اپنی کارستانیوں سے باز نہیں آ رہی گزشتہ جمعہ کو ایک مرتبہ پھر افغانستان کے شہر قندھار کی ایک امام بارگاہ میں دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میں درجنوں افراد لقمہ اجل ہو گئے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ یہ دوسرا جمعہ ہے کہ یکے بعد دیگرے یہ واقعہ ہواہے۔ اس سے پیشتر گزشتہ جمعہ کو بھی اسی قسم کا واقعہ افغانستان کے شہر قندوز میں ہو چکا ہے۔ ادھر اسرائیل نے اسی دن ہی شام پر بمباری کی لبنان کے اندر بھی خلفشار ہے دوسری جانب عراق میں الیکشن تو ہو چکے پر نتائج پر کچھ پارٹیوں کو تحفظات ہیں۔ لبنان میں بھی حالات کشیدہ ہیں اور اس کثیر القومی ملک میں جب بھی فریقین کے درمیان اختیارات کے استعمال میں گڑ بڑہوئی تو لبنان کا امن عامہ متاثر ہوا ہے 1970 اور 1981 کے درمیان تو لبنان کا دارالحکومت بیروت سخت خانہ جنگی کا شکار رہا جس سے اس کی اینٹ سے اینٹ بج گئی تھی حالانکہ اس سے پہلے ایک لمبے عرصے تک بیروت کو مشرق وسطے کا پیرس کہا جاتا تھا اور وہ سیاحوں کی پسندیدہ جگہ قرار پا گیا تھا خدا کرے کہ عراق لبنان اور شام میں جو سیاسی بے چینی کی تازہ ترین لہر اٹھی ہوئی ہے وہ مزید نہ پھیلے کیونکہ اگر ان ممالک میں کسی قسم کی کشیدگی ہوتی ہے تو اس کا منفی اثر ساری مسلم دنیا پر بالواسطہ یا بلاواسطہ پڑے گا۔امریکہ اور یورپ کی اسلحہ ساز کمپنیاں تو یہ چاہیں گی کہ دنیا میں زیادہ سے زیادہ جنگیں ہوں تاکہ ان کا اسلحہ بکے یاد رہے کہ ان اسلحہ ساز کمپنیوں کے مالک سیاسی طور پر بڑے مضبوط ہیں اور انہوں نے اپنے اپنے ملکوں میں مافیاز کی شکل اختیار کر لی ہے یہاں پر اگر او آئی سی کا ذکرہو جائے تو بے جا نہ ہو گا۔جہاں تک عالم اسلام کو درپیش مسائل کا تعلق ہے یہ ادارہ خواب خرگوش میں مبتلا ہے جب کبھی بھی کسی مسلم ملک پر کوئی افتاد آئی تو زیادہ سے زیادہ جو اس ادارے کے ممبر ممالک کر سکے وہ بس یہ تھا کہ انہوں نے اپنے رکن ممالک کے نمائندوں کا اجلاس بلا لیا اور ایک مذمتی قراد داد پیش کرنے کے بعد منتشر ہو گئے۔ چین نے سفارتی محاذ پر بھوٹان کے ساتھ سفارتی تعلقات قاہم کر کے بھارت کے خلاف ایک زبردست ماسٹر سٹروک کھیلا ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب وہ بھوٹان کو بھی سی پیک کا حصہ بنا سکے گا لگ یہ رہا کہ جلد یا بدیر سکم‘ نیپال‘ ارونا چل پردیش‘ بھوٹان اور لداخ مکمل طور پر چین کی دسترس میں آ جائیں گے۔ یہ چھوٹی چھوٹی ریاستیں اتنی کمزور ہیں کہ خود سے تو یہ کچھ بھی کر نہیں سکتیں جب سی پیک سے ان میں بسنے والوں کی زندگی میں خوشگوار انقلاب آ ئے گا تو وہ چین کی طرف مستقل طور پر راغب ہو جائیں گی اور تب چین مغربی بنگال کے دروازے پر دستک دینے لگے گا۔ بھارت اس پورے معاملے پر انگشت بدندان کھڑا نظر آ رہا ہے۔وہ اس صورت حال کو ایک خاموش تماشائی کی طرح دیکھ رہا ہے پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کر بھی کیا سکتا ہے۔ چین کے ساتھ لڑنے سے تو وہ رہا امریکہ کے اشارے پر نریندرا مودی نے چین سے پنگا تو لے لیا ہے پر اب وہ چین کو سنبھالنے سے قاصر ہے۔ چین سے دشمنی مول لے کر اس نے شیر کے منہ میں اپنا پنجہ دے دیا ہے یا وہ 1955  کا سال تھا جب چینی ہندی بھائی بھائی کے نعرے لگا کرتے تھے پر یہ اس زمانے کی بات ہے جب بھارت میں پنڈت جواہر لال نہرو جیسے حکمران اقتدار میں تھے جو اپنے وقتوں کے زمینی حالات کو ملحوظ خاطر رکھ کر اپنی خارجہ پالیسی مرتب کیا کرتے تھے ماضی میں بھارت نے اس وقت سوویت یونین اور امریکہ دونوں کیساتھ دوستانہ تعلقات رکھے ہوئے تھے جبکہ آج کل مودی نے اپنے تمام انڈے امریکہ کی ٹوکری میں رکھ دئیے ہیں۔