ماضی میں دیانتدار حاکم کے بارے میں اس کے ماتحت کہا کرتے کہ وہ نہ کھاتا ہے اور نہ کسی کو کھانے دیتا ہے آج کل کے ماڈرن زمانے بعض لوگ کرپشن کا دفاع یوں کہہ کر کرتے ہیں کہ وہ کھاتا ہے تو لگاتا بھی تو ہے۔ لگتا ہے ہم نے کرپشن کر ذہنی طور پر قبول کرلیا ہے اور اس کو برائی سمجھنے کی بجائے ایک معمول کی عادت سمجھنے لگے ہیں۔اسی طرح سفارش بھی وہ برائی ہے جس کا ہمارے ہاں دور دورہ ہواہے اور کوئی چھوٹا یا بڑا کام ہو ہم سفارش کے ذریعے ہی اپنے لئے آسانی ڈھونڈنے کی تلاش میں رہتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ ہماری بے صبری ہے کہ ہم معمول کے مطابق معاملات کو نمٹانے کا حوصلہ نہیں رکھتے اور کوشش کرتے ہیں کہ ہمارا کام جلد از جلد ہو۔ اسی طرح لائن میں لگ کر وقت گزارنے سے کوفت ہوتی ہے اور ہماری کوشش ہوتی ہی کہ سفارش کرکے قطار سے ہٹ کر اپنا کام نمٹائیں۔ اب آتے ہیں حالات حاضرہ کی طرف بین الاقوامی سیاسی اُفق پر جو جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں وہ ابھی تک کسی صورت بھی کم نہیں ہوئے گزشتہ ہفتے کے دن ایک امریکی فوجی طیارے نے اس جگہ پر روس کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی کہ جس میں آج کل چین اور روس مشترکہ طور پر دفاعی مشقیں کر رہے ہیں روس کے طیاروں نے نہایت اعلی حکمت عملی سے امریکی طیارے کو گھیرے میں لے کر اسے اپنی حدود سے باہر نکال دیا یاد رہے کہ دو روز قبل ایک امریکی جنگی بحری جہاز بھی اس علاقے میں گھس آیا تھا جسے روسیوں نے باہر دھکیل دیا تھا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ امریکہ اپنی شرارتوں سے باز نہیں آرہا۔ ادھر ایسا سمجھیں کہ بھوٹان اب بھارت کے تسلط سے بالکل نکل چکا ہے اور کوئی دن جاتا ہے کہ وہاں بھی چین سی پیک کا دائرہ کار بڑھا دے بھوٹان کی حکومت کے ساتھ چینی حکومت نے جو معاہدہ کیا وہ اس سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے بھارت کی اس معاملے میں پراسرار خاموشی اس حقیقت کی غمازی کرتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ اس خطے میں وہ چین کا کسی بھی صورت مقابلہ کر سکے آج اس کے ہاتھ سے بھوٹان نکل گیا ہے کیا عجب کل ارونا چل پردیش سکم لداخ اور تبت بھی نکل جائے جہاں تک وطن عزیز کی سیاست کا تعلق ہے لگ یہ رہا ہے کہ آئندہ عام انتخابات سے پہلے پی ڈی ایم اور پی پی پی اپنا اپنا سیاسی تندور گرم کر رہی ہیں پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے مولانا فضل الرحمان صاحب شہباز شریف صاحب اور مریم نواز شریف صاحبہ سرگرم عمل ہیں اور وہ روزانہ کی بنیادوں پر حکومت وقت کو کسی نہ کسی فورم میں تقریر کر کے تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں تو دوسری طرف پی پی پی کے چیرمین بلاول بھٹو پیش پیش ہیں یہ دونوں سیاسی دھڑے سر دست ملک بھر میں ضلعی سطح پر ملک میں تیزی سے پھیلتی ہوئی اشیائے خوردنی میں گرانی کے خلاف احتجاجی مظاہرے کرنے کا پروگرام بنا رہے ہیں اس کے بعد دوسرے مرحلے میں 15 دنوں کے بعد زمینی حقائق کا جائزہ لینے کے بعد وہ اپنے اگلے مرحلے کے احتجاجی پروگرام کا اعلان کریں گے۔ سیاست میں کوئی حرف آخر نہیں ہوتا عین ممکن ہے کہ آئندہ عام انتخابات کے نزدیک یہ دونوں سیاسی پارٹیاں ملک کے بعض انتخابی حلقوں میں قومی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی پالیسی اپنا لیں۔