طور خم بارڈر گزشتہ کئی روز سے افغان حکومت کے بعض خدشات اور غیر ذمہ دارانہ رویے کے باعث ہر قسم کی تجارت کیلئے بند ہے۔ جس کے باعث جہاں پاکستان اور افغانستان کی بزنس کمیونٹی اور اسکے متعلقہ لیبر فورس کو سخت نقصان کا سامنا ہے وہاں پڑوسی ملک کے عوام کو دوسری چیزوں کے علاوہ اشیائے خورد نوش کی شدید قلت کا بھی سامنا کرنا پڑ رہاہے۔ دوسری طرف افغان حکومت نے چند روز قبل پی آئی اے کی فلائٹس آپریشن کو اس لئے بند کردیا ہے کہ ان کے بقول پاکستانی ائرلائن زیادہ کرایہ وصول کر رہی تھی۔ طور خم کے علاوہ غلام خان اور چمن بارڈر کرسنگ کو بھی ایسی ہی صورتحال اور رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ سال 2020کے مقابلے میں پاک افغان تجارت میں رواں برس کمی واقع ہو گئی ہے جو کہ تشویشناک امرہے۔ اگر چہ بعض حلقے اس صورتحال کو افغانستان کے جاری حالات اور بے یقینی کا عارضی نتیجہ قرار دے رہے ہیں اور ان کاخیال ہے کہ جیسے ہی وہاں گورننس کے معاملات درست ہوں گے تجارت اور آمدورفت میں اضافہ ہوجائیگا۔ تاہم اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ افغانستان کی طالبان حکومت اس تعاون اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرتا دکھائی نہیں دے رہی جس کی توقع کی جارہی تھی۔ پاکستان نے اپنے مسائل اور عالمی دباؤ سے قطع نظر جہاں افغان حکومت کیلئے عالمی سطح پر لابنگ کی وہاں انسانی ہمدردی کی بنیاد پرخوراک‘ دوائیاں اور دوسری اشیاء بڑی مقدارا میں بھی 15اگست کے بعد بھیجتا رہا۔ اس کے باوجود رکاوٹیں اور مشکلات سمجھ سے باہر ہے۔ پاکستان اور افغانستان کی آمدورفت اور تجارت بدترین حالات میں بھی جاری رہیں ہیں۔ اس وقت اگر یہ کہا جائے کہ افغانستان کے اشیائے ضرورت کا ستر فیصد انحصار بوجوہ پاکستان پر ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ کیونکہ دوسرے پڑوسی ممالک اور افغانستان کے درمیان جہاں لمبی مسافت یا دوریوں کا مسئلہ ایک بڑی رکاوٹ ہے وہاں دوسرے ممالک کے تجارتی اور کاروباری حلقے خوف کے باعث افغانستان کے ساتھ تجارت سے خوفزدہ بھی رہتے ہیں۔ افغانستان کے تقریباً پندرہ صوبوں کا تجارتی انحصار پاکستان سے جانیوالی اشیاء پر ہے کیونکہ اکثر صوبے پاکستان کی سرحدوں پر واقع ہیں اور اس بزنس سے ہزاروں افغان بھائیوں کا روزگار بھی وابستہ ہے۔ ایسے میں طور خم، چمن اور غلام خان جیسی کراسنگ پوائنٹس پر رکاوٹیں کھڑی کرنے اور ان کی بندش سے مشکلات میں گھرے افغان بھائیوں کے مسائل میں مزید اضافے کا راستہ ہموار ہوگا۔ یہ درست ہے کہ نئی افغان حکومت کو معاملات سنبھالے چند ہفتے گزر گئے ہیں اور پڑوسی ملک کو انتظامی مسائل کا بھی سامنا ہے۔ تاہم پاکستان کے ساتھ معاملات کو درست اور نارمل رکھنا افغانستان کی ضرورت ہے اور نئی افغان حکومت کو یہ مسائل جلد از جلد حل کرنے ہوں گے۔ پاکستان انٹرنیشنل ائر لائن کے حکام کو بھی چاہئے کہ وہ افغان حکومت اور عوام کی جانب سے زیادہ کرایہ کی شکایت کا فوری نوٹس لے کر یہ مسئلہ حل کرے کیونکہ افغان عوام کو ہماری غیر معمولی تعاون کی ضرورت ہے۔ پی آئی اے کو پشاور اور کوئٹہ سے بھی فلائٹس چلانے کی تجویز اور آپشن کا جائزہ لینا چاہئے۔ ادھر حال ہی میں کابل کے پاکستانی سفارتخانے کے ایک اعلان کے مطابق سینکڑوں افغان سٹوڈنٹس طور خم کے راستے پاکستان میں داخل ہونے بارڈر پہنچے جو ایک پالیسی اور طریقہ کار کے مطابق پاکستان کے مختلف علاقوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں تاہم ان کو اس وقت سخت مایوسی اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جب ان کو بوجوہ پاکستان میں داخلے کی اجازت نہیں ملی۔ اس مسئلے کا حل نکالنا پاکستان کے متعلقہ اداروں کیلئے بہت ضروری ہے جبکہ ویزوں کے اجراء سے متعلق شکایات کا نوٹس لینا بھی لازمی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہنگامی بنیادوں پر آمد ورفت و تجارت اور ویزوں کی سہولتوں سمیت دیگر امور پراقدامات کئے جائیں تاکہ مشکلات سے دوچار افغان بھائیوں کی بروقت مدد کی جاسکے جبکہ افغان حکومت کا بھی فرض بنتاہے کہ پاکستان کے ساتھ کوارڈینیشن کو بہتر کرکے غیر ضروری مشکلات پیداکرنے سے گریز کیا جائے۔