اہم ملکی اور بین الاقوامی معاملات

ایک منچلے نے ہم سے یہ سوال پوچھا ہے کہ یہ جو پٹرول کی قیمت میں عالمی سطح پر اضافہ ہوتا ہے تو اس کے چند گھنٹوں کے اندر اندر پاکستان میں واقع پٹرول پمپ فوراً نئی قیمتوں پر پٹرول کیوں بیچنا شروع کر دیتے ہیں کیونکہ ان کے پاس تو جو پٹرول موجود ہوتا ہے وہ تو انہوں نے کم از کم دو مہینے پیشتر سابقہ قیمت پر خرید کر سٹاک کیا ہوتا ہے بالفاظ دیگر وہ تو پرانا سٹاک ہوتا ہے جو انہوں نے سابقہ کم ریٹ پر خریدا ہوتا ہے اصولی طور پر پٹرول کے نئے نرخ تو اس سٹاک پر لاگو کرنے چاہئیں کہ جو اس کی قیمت میں اضافے کے بعد اب وہ منگائیں گے اور جو ان کے پاس کم از کم دو ماہ کے بعد پہنچے گا۔ یہ سوال بڑا منطقی اور وزنی ہے۔ کیا پٹرول مافیا کی اس من مانی اور بے جا منافع خوری کا حکومت کے پاس کوئی بھی علاج نہیں؟ بہتر ہو گا اگر وزارت پٹرولیم اس منطقی سوال کا کوئی منطقی جواب دے۔کچھ معاملات اس قدر اہم ہوتے ہیں کہ ان کو بروقت نمٹایا جائے اور جس قدر ہوا میں معلق رہتے ہیں تو وہ مزید پیچیدہ ہوتے جاتے ہیں۔اہم ترین وزارتوں کیلئے وزیرو مشیر مقرر کرنے کا تعلق بھی ایسے ہی معاملات میں سے ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ ستائیس اکتوبر کو تہران میں ایران کی حکومت کے زیر اہتمام افغانستان کے مسئلے پر ایک کانفرنس کا انعقاد کیا جارہا ہے جس میں افغانستان کے تمام ہمسایہ ممالک کے نمائندے بشمول روس شرکت کریں گے افغانستان میں دیرپا امن کے حصول کیلئے یہ بات نہایت ضروری ہے کہ اس کے تعلقات اپنے تمام ہمسایہ ممالک بشمول وسطی ایشیا کے ممالک نہایت اچھے ہوں اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ایران کی یہ کاوش نہایت قابل ستائش ہے اسی طرح افغانستان کے تعلقات روس اور چین کے ساتھ بھی نہایت خوشگوارہونے ضروری ہیں۔واضح رہے کہ حال ہی میں روس نے بھی ایک کانفرنس کی میزبانی کی ہے جس میں طالبان سمیت وسطی ایشیائی ممالک چین اور پاکستان بھی شریک تھے اور سب نے افغانستان کی مدد کرنے کی حامی بھری ہے۔ لگ یہ رہا ہے کہ بھارتی جنتا پارٹی اپنے آ پے سے باہر ہو رہی ہے ہندوتوا کے فلسفے نے اس سیاسی پارٹی کو ایک انتہا پسند تنگ نظر پارٹی میں تبدیل کر دیا ہے اور وہ برصغیر میں رہنے والی تمام اقلیتوں کے خلاف جارحانہ کاروائی پر اتر آئی ہے۔ بالکل اسی طرح کہ جس طرح کسی زمانے میں جرمنی کی نازی پارٹی اقلیتکے خلاف رویہ تھا۔اگلے روز بنگلہ دیش میں ایک فرقہ وارانہ فساد براہ راست بی جے پی کے انتہا پسندانہ پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔جس پر پہلی مرتبہ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے مودی سرکاری کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ مودی اور اس کے حواریوں کو اپنی اس شدت پسندی کی بڑی بھاری سیاسی قیمت ادا کرنی پڑے گی انہوں نے ہندؤں کے دل و دماغ میں اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے خلاف اتنا زہر بھر دیا ہے کہ اب اسے ان کے دماغ سے نکالنا بھارت میں مستقبل میں برسرِ اقتدار آنے والی پارٹیوں کیلئے نہایت ہی مشکل ہوگا۔ سوشل میڈیا ایک شتر بے مہار کی طرح ہے جس کا جو جی چاہے اس کے ذریعے کہہ دیتا ہے آ زادی رائے کی بھی ایک حد ہوتی ہے کوئی حدود وقیود ہوتے ہیں یہ نہیں ہوتا کہ اس کے ذریعے ہر انٹ شنٹ کہہ دیا جائے۔ ایک مشہور کہاوت ہے کہ سچ نے ابھی اپنے جوتوں کے تسمے بھی باندھے نہیں ہوتے کہ جھوٹ آ دھی دنیا کا چکر لگا کر آ چکا ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا پر اکثر جو خبریں براڈکاسٹ یا ٹیلی کاسٹ کی جاتی ہیں وہ بے بنیاد ہوتی ہیں اور ارادتاً یا غیر ارادتاً ان کے نشر کرنے سے معاشرہ انتشار اور کنفیوژن کا شکار ہوتا ہے۔سوشل میڈیا کے معاملات کو بطریق احسن ریگولیٹ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔