جامعات میں ایسے لوگ بہت کم ہونگے جو25سال ملازمت پوری کرکے 60سال کی عمر میں نوکری کوخیرباد کہہ دیتے ہیں بلکہ اکثریت ایسے ملازمین کی ہے جو35 اور 40 سال تک ملازمت کرکے فارغ ہو جاتے ہیں یعنی اپنی زندگی یا عمر کی اس سٹیج پر جسکے بارے میں کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ”ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات“ ایسے سبکدوش ملازمین یا بہ الفاظ دیگر عمر رسیدہ لوگوں میں ایسے بھی ہوتے ہیں جو کسی دائمی عارضہ کا شکار ہوتے ہیں مطلب ان کا گزر بسر ادویات پر ہوتا ہے اور دوائیوں کی قیمتیں؟ بس یہ کہنا مناسب ہوگا کہ”الامان“ مشاہدے کے مطابق ایسے بھی ہیں جو اولاد نرینہ سے محروم ہیں اور ایسے بھی جو معذور ہیں کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ریٹائرڈ ملازمین میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جن کی گزر بسر کا واحد آسرا محض پنشن ہی ہوتی ہے مگر کیا کریں کہ اب حالت یہ ہے کہ گزشتہ سال تو خیر بجٹ والے دس فیصد اضافے سے بھی محروم رہے مگر رواں مالی سال کیلئے جو روایتی دس فیصد اضافے کا اعلان کیا گیاہے بے چارے ان کے حصول کیلئے بھی ٹھوکریں کھا رہے ہیں المیہ یہ ہے کہ مذکورہ اضافہ گرانٹ کی شکل میں تاحال جامعات کو نہیں ملا ہے جبکہ یونیورسٹیوں کی حالت یہ ہے کہ گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران ظالم کورونا کے ہاتھوں ان کے ذرائع آمدن مفلوج ہو کر رہ گئے ہیں جبکہ اب یہ بات بھی سننے میں آئی ہے کہ وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتوں نے جامعات سے کہا ہے کہ بجٹ میں اعلان کردہ اضافے اور الاؤنسز وغیرہ کی ادائیگی پر جتنے اخراجات آتے ہوں یونیورسٹیاں پہلے اسے اپنی فنانس اینڈ پلاننگ کمیٹی اور سنڈیکیٹ سے منظور کروا کر بھجوائیں تو تب کہیں جاکر انہیں اسکی گرانٹ ملے گی پشتو میں ایک کہاوت ہے کہتے ہیں کہ بھوکے کو توے پر پڑی روٹی بھی بہت دور نظر آتی ہے تو پنشن یافتہ بیچارے ان منظوریوں کی راہ تکتے رہیں گے کیونکہ اگر کریں تو کیا کریں؟ کہنے کی بات یہ بھی ہے کہ جامعات کی انتظامیہ کو حکومتی شرط پوری کرنے بعض دس فیصد اور دس فیصد پنشن کے اضافے والے اخراجات کی اپنی قانونی باڈیز سے منظور کروانے میں کیا حرج اور کونسی رکاوٹ حائل ہے؟ اسی طرح حاضرسروس ملازمین کی بے چینی بھی کوئی کم نہیں وہ بھی دس فیصد اضافے اور الاؤنسز میں معمولی اضافے کے حصول کے منتظر ہیں بلکہ احتجاج کیلئے بھی پرتول رہے ہیں ان میں سے قدرے زیادہ بے چینی ان بے چاروں میں پائی جاتی ہے جو کلاس فور یا کلاس تھری ہیں کیونکہ ان میں صاحب مال و جائیداد اور بینک بیلنس والے بہت ہی کم ہوتے ہیں رہے اساتذہ تو وہ یقینا بادشاہ لوگ ہیں اور بادشاہوں کی قسمت نہ صرف بڑی ہوتی ہے بلکہ ہر وقت جاگتی بھی رہتی ہے اب دیکھئے ناکہ کورونا والے بجٹ میں بھی ان کیلئے صوبائی حکومت20 فیصد ٹیچنگ الاؤنس کا اعلان کیا ہے یہ الگ بات کہ تاحال ملا نہیں مگر وہ جو کہتے ہیں کہ کسی خوشی کے آنے یا کسی چیز کے کھانے سے قبل انتظار کی جو کیفیت ہوتی ہے وہ زیادہ مزے والی ہوتی ہے اساتذہ کرام کا تذکرہ آیا تو مجھے وہ تعلیمی وظائف یاد آگئے جو ہر سال جامعہ پشاور کے اساتذہ کی تنخواہوں سے گریڈ وائز کٹوتی کرکے سکالرشپ فنڈ میں جمع ہوتے تھے اور پھر ٹیچرز ایسوسی ایشن اور انتظامیہ ملکر اسے یونیورسٹی کے نادار طلباء کو تعلیمی وظائف کی شکل میں فراہم کیا کر تے تھے۔ معلوم نہیں کہ یہ فلاحی کام اب بھی جاری ہے یا دوسرے بہت سارے کاموں کی طرح یہ بھی کورونا کی نذر ہوگیا ہے؟ تو ہم بات کر رہے تھے بیچارے عمر رسیدہ ریٹائرڈ ملازمین بالخصوص درجہ سوم اور درجہ چہارم ملازمت سے سبکدوش ہونیوالوں کی جب سے اضافے کا اعلان ہواہے یہ بیچارے بوڑھے بابے اور کمزور اور بیمار ماسیاں یونیورسٹی کی پنشن برانچ کے چکر کاٹنے پر مجبور ہیں اگر کوئی سرراہ پوچھے تو کہتے ہیں معلوم نہیں کہ ہماری عمر بھر کی خدمت کاصلہ کیونکر اس طرح دیا جاتا ہے؟ سنا ہے کہ ریٹائرڈ ملازمین نے ایک یونین بنا کر اسلامیہ کالج سے اس کی ابتداء بھی کی تھی مگر یونین بے چاری کیا کرے گی کیونکہ ایسے کاموں کیلئے چاق و چوبند جوان لوگ چاہئے جو نعرے لگائیں‘ ریلیاں نکالیں اور دھرنے دیں اب اگر بوڑھے عمر رسیدہ لوگ اکٹھے بھی ہو جائیں تو دعا یا بددعا کے سوا کیا کر سکتے ہیں؟
اشتہار
مقبول خبریں
بے اعتنائی کی کوئی حد نہیں ہوتی؟
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
مژدہ برائے سبکدوشان
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
تجدید عزم یا عزم نو؟
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
مادر علمی کی عظمت رفتہ
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے