ہمسائے کا نعم البدل؟

عرصہ دراز سے پاکستان میں امریکہ نے اپنا کوئی ریگولر سفیر نامزد نہیں کیا ہواتھا اور یہ آسامی خالی پڑی ہوئی تھی اگلے روز امریکی صدر بائیڈن نے ڈانلڈ بلوم کو پاکستان میں بطور امریکی سفیر تعینات کر دیا ہے گو ان کی تقرری امریکی سینٹ کی منظوری کے بعد ہی عمل میں لائی جا سکے گی‘نئے امریکی سفی ایک پرانے کیریئر ڈپلومیٹ ہیں جنہوں نے ماضی میں مشرقی وسطیٰ کے کئی ممالک اور افغانستان میں بھی امریکی حکومت کے سفارت کار کی حیثیت سے ذمہ داریاں نبھائی ہوئی ہیں اور وہ کئی زبانوں پر عبور بھی رکھتے ہیں وہ بر صغیر اور افغانستان کے سیاسی حالات سے بھی بخوبی باخبر ہیں۔بعض سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں شاید افغانستان کے معاملات سے نبٹنے کے لئے امریکہ اسلام آباد میں واقع اپنے سفارت خانے کو ہی زیادہ استعمال کرے اس لئے آئندہ چند ماہ کیلئے اسلام آباد میں امریکی سفارت خانہ بڑی اہمیت کا مرکز بن سکتا ہے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں تین سال سے زیادہ عرصہ ہونے کے باوجود کوئی امریکی سفیر موجود نہیں تھا۔امریکہ کی سیکرٹری خارجہ نے سینئر سفارتکار تھامس ویسٹ کو افغانستان کے لئے امریکہ کا نیا نمائندہ خصوصی مقرر کر دیا ہے جواب خلیل زاد کی جگہ لیں گے۔زلمے خلیل زاد نے گزشتہ پیر کو اپنا استعفیٰ پیش کیا جس میں انہوں نے یہ تحریر کیا کہ میں سمجھتا ہوں کہ ایسے وقت میں جب ہم افغان پالیسی کے ایک نئے مرحلے میں داخل ہو رہے استعفیٰ دینے کیلئے میرا یہ موزوں وقت ہے،نئے امریکی سفیر کی تقرری پاکستان کے نقطہ نگاہ سے اس لئے بھی اہم ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم اور امریکی صدر کے درمیان مواصلاتی رابطہ ابھی قائم نہیں ہوا،نئے امریکی سفیر چونکہ پاکستان میں پورے اختیارات کے ساتھ امریکی مشن کے سربراہ ہوں گے اس لئے پاکستان کی حکومت ان سے یہ توقع رکھے گی کہ وہ دونوں ممالک کے درمیان حل طلب مسائل کے حل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گے اور اس ضمن میں اپنے ذاتی تجربے کو بروئے کار لائیں گے۔ آج کل اس ملک میں لوگ یہ بات بر ملا کر رہے ہیں کہ پاکستانی کے سر پر ایک لمبے عرصے سے امریکہ کے ہی بادل منڈلاتے رہے ہیں،ایک مرتبہ ایئر مارشل اصغر خان نے ہمیں ایک نجی ملاقات میں کہا تھا کہ 1965 ء کی جنگ کے دوران فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے انہیں ممکنہ چینی امداد حاصل کرنے کے لئے چین بھجوایا تھا،انہوں نے بیجنگ میں اس وقت کے چینی وزیراعظم چو این لائی سے ملاقات کی جس کے دوران چینی وزیراعظم نے بڑے فراخ دلانہ انداز میں ان کو کہا کہ جتنے بھی جنگی جہاز پاکستان کو درکار ہوں ہم دینے کو تیار ہیں پر ساتھ ہی ساتھ انہوں نے ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ انہیں یہ بھی کہا کہ ہماری طرف سے تو یہ پیشکش آپ کو حاضر ہے پر میرے خیال میں آپ کا صدر ہماری اس پیشکش کو قبول نہیں کرے گا کیونکہ ایسا کرکے وہ امریکہ کو کبھی بھی نالاں نہیں کرنا چاہے گا اس واقعے کا ذکر اصغر خان صاحب نے اپنی ایک کتاب میں بھی کیا ہے۔ امریکہ کی دوستی سے ہمیں کیا ملا آج قوم اپنے آپ سے یہ سوال کر رہی ہے اور اس ملک کی ایک اکثریت کا بھی یہ خیال ہے کہ ہم امریکہ کی طرف زیادہ دیکھنے کے بجائے اپنی قریبی ہمسایہ ملکوں سے اپنے تعلقات خوشگوار رکھیں جن میں چین اور روس سرفہرست ہیں۔