سیاسی اقدار کا فقدان

عالمی سیاسی اُفق کے کئی مقامات پر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں امریکہ نے چین کو دھمکی دی ہے کہ اگر اس نے تائیوان پر حملہ کیا تو وہ تائیوان کی مدد کیلئے میدان جنگ میں کود سکتا ہے۔ اس کے ردعمل میں جواب آں غزل کے طور پر چین نے امریکہ اور تائیوان سے کہا ہے کہ وہ ڈیڑھ ارب کی بڑی آ بادی رکھنے والے ملک چین سے پنگا لینے سے پہلے ہوش کے ناخن لیں دوسری طرف امریکہ روس کے قرب و جوار میں واقع یوکرائن اور جارجیا میں مداخلت سے باز نہیں آ رہا اور ان سے خفیہ عسکری معاہدے کر رہا ہے آج کل سیاسی مبصرین اس سوال کا جواب تلاش کر رہے ہیں کہ کیا بیک وقت روس اور چین جیسی سپر پاورز کے خلاف طبل جنگ بجا کر امریکہ کہیں غلطی تو نہیں کر رہا؟ خبط عظمت ماضی میں کئی بڑی تہذیبوں اور سلطنتوں کے زوال کا باعث بنا ہے ماضی قریب میں خود سوویت یونین بھی خبط عظمت کا ہی شکار ہوکر ٹکڑے ٹکڑے ہوا تھا ان ابتدائی کلمات کے بعد آیئے چند ان مسائل کا ذکر ہو جائے کہ جن کا اس ملک کے مستقبل کے ساتھ گہرا تعلق ہے اپ اس بات سے تو یقینا واقف ہوں گے کہ فیٹف ایک ایسا عالمی ادارہ ہے جس کے قیام کا مقصدبظاہر ان ممالک پر نظر رکھنا اور ان پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنا ہے جو دہشتگردی کے خلاف عالمی کوششوں میں تعاون نہیں کرتے تاہم پاکستان کے حوالے سے اس ادارے کی پالیسی امتیازی سلوک پر مبنی ہے کیونکہ پاکستان 2018 سے گرے لسٹ میں ہے اور اس کی وجہ انسداد دہشت گردی کیلئے فنڈنگ انسداد منی لانڈرنگ کے حوالے سے خامیوں کی موجودگی کو قرار دیا گیا ہے، حالانکہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اولین دستے کا کردار ادا کیا ہے اور خود یہ ملک دہشت گردی کا شکار ہے۔ بھارت درپردہ کئی دہشت گرد تنظیموں کی سر پرستی کررہا ہے مگر وہ بھی ایف اے ٹی ایف کے کرتا دھرتاؤں میں شامل ہے۔حالانکہ خود اس کا کردار اس قابل ہے کہ اسے ایف اے ٹی ایف کی پابندیوں کا سامنا کرنا چاہئے۔ دوسری طرف منی لانڈرنگ کے خلاف موثر اقدامات کے باوجود پاکستان کو سر دست اس لسٹ سے ہٹایا نہیں گیا ہے۔ دوسری طرف یہ بات تشویشناک ہے کہ پاکستان کی کرنسی کی قیمت نہ صرف ڈالر بلکہ یورو اور پاونڈ سمیت دنیا کی ہر کرنسی کے مقابلے میں گھٹتی جا رہی ہے یاد رہے کہ کرنسی کی قدر میں معمولی سی کمی بھی ملکی قرضوں میں بھاری اضافے اور اشیائے ضروریہ کے نرخ بڑھانے کا سبب بن جاتی ہے حالات دن بدن خراب ہو رہے ہیں اور عوامی اور تجارتی برادری میں اضطراب کی کیفیت صاف نظر آ رہی ہے دوسری جانب اپوزیشن نے مہنگائی کے خلاف ملک گیر مظاہروں کا پروگرام شروع کر دیا ہے۔پارلیمنٹ کے اندر اور پارلیمنٹ کے باہر جلسوں اور پریس کانفرنسوں میں ہمارے سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف جو زبان استعمال کر رہے ہیں ا س پر اخلاقیات کے لحاظ سے کئی طرح کے سوالات اٹھ سکتے ہیں۔ آخر وہ اپنے اس طرز عمل سے اس قوم اور ملک کی نئی نسل کو کیا پیغام پہنچا رہے ہیں ان کی کس قسم کی اخلاقی اور زہریلی تربیت کر رہے ہیں ہیں اور اپنے آپ کو جگ ہنسائی کا سبب کیوں بنا رہے ہیں؟ دیکھا جائے توکسی بھی جماعت کے رہنما اپنے کارکنان کیلئے کردار کے حوالے سے نمونہ ہوتا ہے۔ اس لئے ان کو اپنا رویہ ایسا رکھنا چاہئے کہ کارکنان ان سے صبر و تحمل اور بردباری سیکھ لیں۔جس کی اس وقت سیاست کو بڑی ضرورت ہے اور بظاہر اس وقت جتنے مسائل کا سامنا دنیائے سیاست کو ہے اس کی بڑی وجہ ان صفات کا فقدان ہے۔ایک اور اہم نکتہ جو قابل غور ہے وہ پارلیمنٹ کے کردار کے حوالے سے سنجیدگی ہے۔ پارلیمنٹ کے اراکین نے ملک اور قوم کی بہتری کیلئے قانون سازی کرنی ہوتی ہے ہر سیاسی پارٹی کا یہ فرض بنتا ہے کہ صرف ان لوگوں کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں اور سینٹ کی نشستوں کا ٹکٹ دیا جائے کہ جو اپنے اپنے شعبوں میں بہترین صلاحیتوں کے مالک ہوں اور خاص طور پر ان شعبوں میں مہارت رکھتے ہوں تاکہ وہ اس قابل ہوں کہ ملک کی بہتری کیلئے عوام دوست قانون سازی کر سکیں۔ ایک عرصہ دراز سے یہ دیکھنے میں آ یا ہے کہ مندرجہ بالا خصوصیات رکھنے والے افراد کو اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے اور ان کے برعکس سیاسی پارٹیوں کے لیڈر ان لوگوں کو اسمبلیوں کی نشستوں کیلیے الیکشن میں پارٹی کے ٹکٹ دیتے ہیں کہ جنہوں نے ان کی پارٹی میں بھاری فنڈنگ کی ہوتی ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک سیاسی جماعت کو اگر اپنے معاملات چلانے کیلئے در کار فنڈز میں اگر کوئی ہاتھ بٹاتا ہے تو وہ بھی کار خیر کرتا ہے تاہم اس کے ساتھ ساتھ قانون سازی کے حوالے سے قابلیت کو ترجیح دینی چاہئے کیونکہ قانون ساز اداروں کے اراکین کی اولین ذمہ داری یہی ہے۔