تیزی سے بدلتے حالات 

تاریخ میں پہلی مرتبہ اگلے روز ایسا ہوا کہ چین اور روس کے بحری جنگی جہاز بحرالکاہل کے اس حصے میں گھس گئے کہ جو جاپان کی بحری حدود میں واقع ہے اور جہاں امریکہ کی بحریہ موجود ہے۔ یاد رہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے جاپان میں 50000 امریکی فوجی اب تک موجودہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ پچھلے کئی دنوں سے امریکہ جارجیا رومانیہ اور یوکرائن میں روس کے ساتھ آنکھ مچولی کھیل رہا ہے اور چین اور روس مل کر امریکہ کے ساتھ ان علاقوں میں کہ جن پر امریکہ کو دسترس حاصل ہے اور یہ صورت حال خطرے سے خالی نہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد یعنی انیس سو پینتالیس سے لے کر ماضی قریب تک دنیا میں میں امریکہ اور سویت یونین کے درمیان سیاسی کشمکش کی فضا قائم رہی امریکہ نے اپنے سیاسی اور عسکری مقاصد کی تکمیل کیلئے نیٹو کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جبکہ اس کے مقابلے میں سوویت یونین نے وارسا پیکٹ کے نام پر اپنے ہم خیال ممالک کا ایک سیاسی اتحاد قائم کیا اور اس طرح دنیا ان دو دھڑوں میں سیاسی طور منقسم رہی۔ اس دوران چین چونکہ اپنی نشا ثانیہ کی کوشش میں مصروف تھا لہٰذا اس نے اپنے آپ کو بین الاقوامی تنازعات کے جھمیلوں سے کافی دور رکھا اور اپنی تمام تر توجہ اپنی معیشت اور تعلیمی اور سائنسی امور کی ترقی پر مرکوز رکھی جس کا ثمر آج اسے مل رہا ہے سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد نیٹو اور وارسا پیکٹ کافی حد تک بے معنی ہو چکے تھے اب تو زمینی حقائق یہ بتا رہے ہیں کہ ان دو عسکری معاہدوں کی جگہ امریکہ اور روس اور چین نے کئی مختلف نوع کے چھوٹے چھوٹے عسکری معاہدات اپنے ہم خیال ممالک کے ساتھ کر رکھے ہیں۔ روس اور چین یک جان دو قالب ہو چکے ہیں۔ ان دونوں میں سب سے بڑی قدرے مشترک یہ ہے کہ یہ دونوں امریکہ کے سخت دشمن ہیں۔ روس اور چین کی دوستی امریکہ کو سخت پریشان کر رہی ہے اور امریکن سی آئی اے کو امریکن تھنک ٹینک نے یہ ٹاسک حوالے کیا ہے کہ وہ کسی نہ کسی حربے سے ان دو ملکوں کے درمیان غلط فہمیوں کا ایک جال بن کر ان کو ایک دوسرے سے جدا کرے کیونکہ جب تک ایسا نہیں ہوتا امریکہ کیلئے بڑا مشکل ہوگا کہ وہ اس مشرقی سیاسی بلاک میں کوئی دراڑ پیدا کر سکے۔ پیوٹن کے روس میں برسراقتدار آنے کے بعد روس کی کافی حد تک دوبارہ سپر پاور کی حیثیت بحال ہوچکی ہے۔اور پیوٹن نے غالبا ًیہ محسوس کر لیا ہے کہ امریکہ کو نیچا دکھانے کیلئے روس کا چین کے ساتھ اشتراک عمل بہت ضروری ہے۔ خارجہ پالیسی کے محاذ پر ہمارا ہمسایہ ملک بھارت گزشتہ ایک سال میں کافی تنہا ہو گیا ہے افغانستان میں اس کی حیثیت بالکل نہ ہونے کے برابرہو گئی ہے۔ امریکہ کے کہنے پر اس نے چین کے ساتھ جو ٹکر لی ہے وہ اسے بہت مہنگی پڑ رہی ہے اور اس کی گرفت بھوٹان سکم تبت لداخ اور ارونا چل پردیش پر کافی کمزور پڑ گئی ہے۔