اقوام متحدہ کے 76 سال

اقوامِ متحدہ کا قیام دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر عمل میں آیا۔ اس سے قبل اسی قسم کی عالمی تنظیم لیگ آف دی نیشنز کی ناکامی دنیا دیکھ چکی تھی۔ اقوامِ متحدہ کو تشکیل دیتے ہوئے اس کے چارٹر میں اس کا جو بنیادی مقصد بیان کیا گیا تھا وہ تھا ”آنے والی نسلی کو جنگ کی لعنت سے محفوظ رکھنا۔“ اور اقوام متحدہ اپنے قیام کے اِس بنیادی مقصد کے حصول میں بڑی حد تک کامیاب ہوا ہے۔ اِس کے علاؤہ اقوام متحدہ نے موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے چلینجوں سے نمٹنے کیلئے 1988ء میں ’انٹرنیشنل پینل آن کلائمیٹ چینج‘ تشکیل دیا تھا تاکہ موسمیاتی تبدیلی کی اس سائنس کو فروغ دیا جائے اور ان تبدیلیوں سے ہونے والے نقصانات کا اندازہ لگایا جا سکے۔ اس پینل کے نتیجہ میں 1992ء میں موسمیاتی تبدیلیوں کے معاملے پر مستقل فورم بنایا گیا لیکن اس سائنسی ادارے کی تجاویز کے باوجود اور ایک سو پینسٹھ ممالک کے دستخط کے باوجود‘ ابھی تک زہریلی گیسوں کے اخراج میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر معاہدہ پیرس میں طے کئے گئے اہداف کو حاصل کر بھی لیا جائے تب بھی دنیا کا موسم گرم ہوتا جائے گا۔ اس برس کورونا وبا کی وجہ سے حدت میں کمی ہوگی لیکن پھر بھی خلا میں زہریلی گیسوں کا ارتکاز بڑھے گا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اقوام متحدہ کے نظام میں اگرچہ کئی ممالک کسی ایک اہم معاملے پر متفق تو ہو جاتے ہیں لیکن متفقہ اہداف حاصل کرنے کیلئے ہر ملک کو مجبور نہیں کر سکتے ہیں۔ خاص کر ایسے ممالک کو جو اپنے مفادات متفقہ اہداف کی خلاف ورزی کے ذریعے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔سال 1948ء کے انسانی حقوق کے اعلامیے میں اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہ ”انسانی خاندان کے تمام افراد کے موروثی وقار اور مساوی اور ناقابل تنسیخ حقوق آزادی‘ انصاف اور امن کی بنیاد ہیں۔“ دنیا میں پہلی بار بنیادی انسانی حقوق عالمی سطح پر محفوظ کئے گئے۔ 1948ء کے بعد سے اب تک دس انسانی حقوق کے معاہدے منظور کئے گئے ہیں۔ انسانی حقوق کی زبان نے فرد‘ ریاست اور بین الاقوامی نظام کے درمیان تعلقات کے بارے میں سوچنے کیلئے نیا فریم ورک تشکیل دیا ہے۔ اگرچہ کچھ لوگ کہیں گے کہ سیاسی تحریکیں ’حقوق‘ کے بجائے ’آزادی‘ پر مرکوز ہیں تاہم انسانی حقوق کے تصور نے ہر فرد کو قومی اور بین الاقوامی توجہ کا مرکز بنا دیا ہے۔ ہم اپنے اپنے سیاسی نظریات کی روشنی میں ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) کو ایک بڑی کامیابی سمجھ سکتے ہیں یا ایک بڑی ناکامی کے طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ کچھ بھی سوچا جائے لیکن ڈبلیو ٹی او تنازعات کے حل کے ایک واضح اور مؤثر عمل کے ساتھ بین الاقوامی تجارتی قانون کا ایک مربوط نظام تشکیل دیتا ہے تاہم ڈبلیو ٹی او نے گلوبلائزیشن کے دور کو فعال کیا جو اب سیاسی طور پر متنازعہ ہے۔ امریکہ یقینا چین کی تجارتی حکمت ِعملی کے ساتھ مسئلہ اٹھانے والی پہلا ملک نہیں‘ جس میں ’ریاستی ملکیتی کاروباری اداروں‘ کیلئے سبسڈی کا معاملہ بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ بے شمار دیگر میدانوں میں اقوام متحدہ نہ صرف ایک عالمی تھنک ٹینک کا کردار ادا کر رہا ہے بلکہ منصوبہ بندی کی سہولیات سمیت مالی امداد بھی مہیا کر رہا ہے اقوام متحدہ کے دوسرے سیکرٹری جنرل ڈاگ ہیمرسکولڈ نے اس ادارے کو مؤثر بنانے کی کافی کوششیں کی تھیں۔ انہوں نے ایک موقع پر کہا تھا کہ اقوام متحدہ ’انسانیت کو جنت میں لے جانے کیلئے نہیں بلکہ انسانیت کو جہنم سے بچانے کیلئے بنایا گیا ہے۔‘ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اقوام متحدہ کی کوششوں کو سراہا جا سکتا ہے تاہم اس ادارے کو بہتر بنانے کی بہت ضرورت ہے وگرنہ اس کے مستقبل میں غیر متعلقہ ہوجانے کے خدشات بھی بڑھ رہے ہیں۔ خاص کر مستقل ارکان کی اجارہ داری اور امریکہ کی قیادت میں نیٹو جیسے اداروں کا اس ادارے سے بالا بالا یا متوازی سطح پر اپنے فیصلے کرنا اور ان پر عملدرآمد کرنا اس ادارے کے مستقبل کیلئے سنگین نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر سیّد حامد علوی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)