کرکٹ کا بخار 

کورونا وائرس کی وبا کا ملک سے ابھی مکمل طور پر خاتمہ نہیں ہوا لہٰذا حکومت نے ویکسی نیشن کی جو مہم چلا رکھی ہے اسے منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے تیز تر کرنا ہوگا تاکہ اس کا دائرہ ملک کی تمام آ بادی تک بڑھایا جا سکے نیز معمر آبادی کیلئے بوسٹر ڈوز کا بھی بندوبست کرنا لازمی ہوگا۔ حفظ ماتقدم کے طور پر حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ اس وبا کی ویکسین کی ملک میں کسی طور بھی کمی پیدا نہ ہو اور ویکس نیشن بلا تعطل جاری و ساری رہے۔ اس جملہ معترضہ کے بعد اب ذکر کرتے ہیں کرکٹ کے بخار کا کہ جس میں وطن عزیز کے کرکٹ کے شیدائی آج کل سخت مبتلا ہیں جس وقت یہ کالم منظر عام پر آئے گا اس وقت تک پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان ٹی ٹونٹی کرکٹ ورلڈ کپ کے دوسرے میچ کا بھی فیصلہ ہو چکا ہوگا۔ اس ٹورنامنٹ کے پہلے میچ میں اگلے روز پاکستان نے ایک سنسنی خیز مقابلے کے بعد اپنے پرانے حریف بھارت کو دس وکٹوں سے شکست فاش دے کر پاکستان اور بھارت کی کرکٹ تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے۔ اس سے پہلے کسی بھی پاکستانی کرکٹ ٹیم نے کسی ورلڈ کپ میں چاہے وہ ونڈے ہو یا پھر ٹی ٹوئنٹی، بھارت کو نہیں ہرا یا اور پھر دس وکٹوں کے بہت بڑے مارجن سے کبھی انڈیا کو شکست ہی نہیں ہوئی اور پاکستان کبھی اس قدر بڑے مارجن سے جیتا ہی نہیں۔لہٰذا اس لحاظ سے پاکستان کی اس جیت کو ایک تاریخی فتح قرار دیا جا رہا ہے ایک لمبے عرصے کے بعد پاکستان کی کرکٹ ٹیم نے بھارت کے خلاف نہایت ہی اچھے کھیل کا مظاہرہ کیا ہے۔ کسی منچلے نے کیا خوب کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کا یہ میچ پاکستان کیلئے اس ٹورنامنٹ کے فائنل میچ کے برابر تھا اب اس بات سے پاکستان کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کسی اور ٹیم سے جیتے یا ہارے ہمارا کام بھارت کو ہرا نا تھا جو ہم نے ہرا دیا۔ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں اپنے پہلے میچ میں روایتی حریف بھارت کو تاریخ ساز معرکے میں شکست دینے کے بعد پاکستانی کھلاڑیوں کی بہترین کارکردگی کو دنیا بھر میں سراہا گیا برطانیہ، فرانس اور آسٹریلیا سمیت دیگر ملکوں کے میڈیا نے پاکستانی ٹیم کی تاریخی کامیابی پر تعریفوں کے پل باندھ دئیے۔ پاکستان اور بھارت کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان میچوں میں ان دونوں ملکوں کے عوام اسی شدت سے ذہنی طور پر حصہ لیتے ہیں کہ جس طرح انگلستان اور آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان ہر دو سال بعد ایشز ashes کے نام سے ہونے والے ٹورنامنٹ میں وہاں کے لوگ از حد دلچسپی دکھاتے ہیں۔ بھارت کی کرکٹ ٹیم میں اس وقت ان کے کپتان ویرات کوہلی کی وہی پوزیشن ہے جو کسی زمانے میں سچن ٹنڈولکر کی ہوا کرتی تھی گزشتہ اتوار کے دن پاکستان اور بھارت کے درمیان عرب امارات میں کرکٹ کا جو میچ کھیلا گیا اس میں بھارت کی طرف سے صرف ویرات کوہلی اچھے کھیل کا مظاہرہ کر سکے ان کی ٹیم کے دیگر کھلاڑیوں نے اوسط درجے کا کھیل پیش کیا ان میں اکثر کھلاڑی ہمیں overweight لگے جیسا کہ محمد شامی‘ بھمرا‘ روھیت شرما‘ جدیجہ وغیرہ بھارتی ٹیم میں صرف فزیکل فٹنس کاہی مسئلہ نہیں ہے ان کی موجودہ ٹیم کے کئی کھلاڑی اب عمر کے اس حصے میں ہیں کہ جس میں ان کے حواس خمسہ اس کھیل کے دباؤ کو برداشت نہیں کر سکتے۔ جس ٹیم سپرٹ اور یکسوئی سے ہماری ٹیم نے گزشتہ اتوار کو بھارت کی ٹیم کے ساتھ مقابلہ کیا اگر اسی جذبے سے وہ آ نے والے میچ بھی کھیلتے رہے تو کوئی عجب نہیں کہ وہ رواں ٹورنامنٹ کے فائنل تک جا پہنچے۔رضوان اور بابر اعظم کی جوڑی نے ہمارے اوپننگ بیٹسمینوں کا مسئلہ کافی حد تک حل کر دیا ہے۔ خدا لگتی یہ ہے کہ اس وقت ہماری ٹیم میں اگر کوئی بہترین بیٹسمین ہیں تو وہ یہی دو بیٹسمینزہیں جو ہر میچ میں تواتر سے سکور کرتے ہیں اور جن کی بیٹنگ کی اوسط 50 سے اوپر ہے۔پاکستانی کرکٹ ٹیم کو فاسٹ باؤلرز کی کبھی بھی کمی نہیں رہی۔ خان محمد‘ محمود حسین‘فضل محمود‘ مناف‘ سرفراز نواز‘عاقب جاوید‘عمران خان‘ وسیم اکرم‘ وقار یونس‘محمد عامر‘ شعیب اختر‘شاھین آفریدی حسن علی محمدعباس جیسے باؤلرز کی صورت میں ہماری ٹیم میں ہر دور میں معیاری فاسٹ باؤلر موجود رہے جو ہمیں کرکٹ کے میدان میں کئی فتوحات سے ہمکنار کراتے رہے۔ رضوان نے بحیثیت وکٹ کیپر بیٹسمین پاکستان کی کرکٹ ٹیم میں اپنی مستقل جگہ بنا لی ہے اب سرفراز احمد کو صرف رضوان کی انجری کی صورت میں ہی استعمال کیا جا سکتا ہے ہاں البتہ یہ بات ضروری ہے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے ارباب بست و کشاد پاکستانی ٹیم میں ہر کھیلنے والی پوزیشن یعنی اوپننگ بیٹسمین‘ فاسٹ باؤلرز‘ سپن باؤلر‘ز وکٹ کیپرز اورمڈل آرڈرز بیٹنگ لائن اپ وغیرہ کیلئے ایک سے زیادہ کھلاڑیوں کو ہر وقت کرکٹ کے میدان میں اُتارنے کیلئے تیار رکھیں جس طرح کہ ٓاسٹریلیا نے کر رکھا ہے۔