اپنائیت کا جذبہ

یونیورسٹی کے کلاس فور ملازمین جامعہ کی پیدل فورس ہوا کرتے ہیں دفاتر میں ڈاک پہنچانا اور بازار سے دفتری ضرورت کا سودا سلف لانا بھی انکے ذمے ہوتا ہے ان میں بعض اپنی سائیکل پر یونیورسٹی آتے اور پھر دفتری کام میں بھی اسے استعمال میں لاتے تھے‘ ہاں لیکن یہ تین عشرے قبل کی بات ہے آج تقریباً ڈیڑھ عشرے قبل جب ڈاکٹر حافظ ثناء اللہ جامعہ پشاورکے ٹر یژرر تھے تو موصوف نے ڈاک وغیرہ کا کام جلد نمٹانے کی غرض سے چند سائیکلیں خرید کر یونیورسٹی کی طرف سے بعض کلاس فور کو دی تھیں مگر چونکہ وہ سرکاری مال تھا اسلئے دل بے رحم کا شکار ہو کر بہت جلد کباڑ والے کی سکریپ کا حصہ بن گیا البتہ جو کلاس فور اپنی سائیکل کے مالک تھے انکی چمک دمک20سال بعد بھی برقرار تھی بلکہ ممکن ہے کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی تاحال ان کے زیر استعمال ہوں اسی طرح ثناء اللہ صاحب ہی کے دور میں نصف درجن موٹر بائیکس بھی خریدی گئیں مگر ان بیچاروں کا بھی بہت جلد بہت برا حال سامنے آیا ان میں چند کیمپس پولیس کے رائیڈر سکواڈ کو عنایت کی گئی تھیں جو کہ اب ماضی کا قصہ بن گئی ہیں کیونکہ وہ بھی سرکاری مال تھا لہٰذا کسی طرح دیکھ بھال اور حفاظت سے محروم رہا اس تمہید کا مقصد یہ ہے کہ جامعات کے نہایت خوش نصیب ملازمین میں بھی اپنائیت یا اونر شپ کا جذبہ کچھ اس قدر ناپید ہوگیا ہے کہ چھوٹے چھوٹے مسائل کا حل بھی ناممکن گردانا گیا ہے یہی اونر شپ کے جذبے کا فقدان ہی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ ہے جس کے سبب یونیورسٹی کا ماحول تعلیمی کیفیت سے بتدریج دور ہوتا نظر آرہاہے ایک بہترین دفتری ماحول میں کام کے انجام دہی بروقت تنخواہ کی فراہمی‘ مختلف الاؤنسز یا مراعات اسکے علاوہ جبکہ تعلیم علاج اور رہائش بھی مفت مگر اسکے باوجود یونیورسٹی کیمپس کا تباہی سے دوچار ماحول ان کی آنکھوں سے اوجھل‘ اگر کوئی بہی خواہ ان مسائل کی نشاندہی کیساتھ ساتھ ان کے حل کا کوئی معقول تجویز پیش کرے تو اس سے دشمنی پر اتر آتے ہیں یعنی کوئی بھی ان سے یہ نہ کہے کہ یونیورسٹی کیمپس جنرل بس سٹینڈ میں کیوں تبدیل ہوگیا ہے یہ جگہ جگہ سٹینڈ بلکہ یہاں تک کہ آئل چینج اور گاڑیاں سروس کرنے(دھونے) کا یہ اہتمام کس قاعدے کے تحت ہے؟ روڈ نمبر2پر ٹریفک جام کیونکر معمول بن گیا ہے؟ یہ رکشوں‘ ٹیکسی اور پک اینڈ ڈراپ گاڑیوں کی ہر جگہ تک رسائی کیوں ممکن ہوگئی ہے؟ انکی آمدورفت کیلئے الگ الگ روٹ کیوں متعین نہیں ہے؟ یہ ٹوسٹروک والے دھواں دار اور سراپا شور رکشے اور نابالغ ڈرائیور کہاں سے آگئے ہیں؟ کیمپس میں تیز رفتاری‘ سکریچنگ‘ ون ویلنگ‘پریشر ہارن‘ سگریٹ نوشی‘ کالے سٹیکر اور ریکارڈنگ کیوں عام ہو رہی ہے؟ سکولز اورکالجز کے طرز پر انڈرگریجویٹ طلباء و طالبات کیلئے یونیفارم لازمی کیوں قرار نہیں دیا جاتا؟ کوڑا کرکٹ اور گندگی کے ڈھیر کئی کئی روز کیوں پڑے رہتے ہیں؟ کیمپس میں آنے والے بھکاریوں اور کم عمر افغان مہاجر لڑکوں کی پھرتیوں کی روک تھام کس کے ذمے ہے؟ روڈ نمبر 2 بالخصوص وائس چانسلر چوک اور انجینئرنگ چوک میں جناح کالج‘ ہوم اکنامکس کالج اور خیبرمیڈیکل کالج کی بسوں کے پریشر ہارن کے استعمال جبکہ پوسٹ مال چوک سے ایجوکیشن کالج(آئی ای آر) گیٹ تک اور وائس چانسلر چوک سے پولیس چوک تک علاقے اڈوں میں تبدیل ہونے سے بچانے کا کام کون کرے گا؟ اساتذہ اور افسران بنگلوں میں رہائش پذیر ہیں جبکہ کلاس تھری اور کلاس فور کوارٹروں میں رہتے ہیں اور جو کیمپس سے باہر اپنے گھروں میں مقیم ہیں انہیں کرایہ ملتا ہے افسران اور سینئر اساتذہ یعنی ڈینز صاحبان کیلئے گاڑیاں اور ڈر ائیور اسکے علاوہ ہفتے میں دوچھٹیاں اور تمام تر مراعات اور سہولیات حاصل مگر کیمپس کی حالت آئے روز دیدنی ہوتی جارہی ہے کیونکہ اونر شپ کا جذبہ اپنی موت آپ مرگیا ہے۔