دنیا میں انتشار کم ہونے کی بجائے دن بدن بڑھتا ہی جا رہا ہے پچھلے پیر کے دن سوڈان میں فوج نے وہاں کی حکومت کا دھڑن تختہ کر دیا جو وہاں گزشتہ 30 برسوں سے برسر اقتدار تھی کسی دور میں سوڈان مصر کا حصہ ہوا کرتا تھا یہ اس وقت کی بات ہے کہ جب وہاں شاہ فاروق کی حکومت کا جنرل نجیب اور کرنل جمال عبدالناصر نے تختہ الٹا تھا ابتدائے آفرینش سے لے کر آج تک یہ دنیا ایک کشمکش میں مبتلا ہے ہمیشہ ہر دور میں دو قسم کے لوگ موجود رہے ہیں۔ ایک وہ کہ جو یہ کہتے ہیں کہ دنیا میں معاشی مساوات ہو اس سوچ کے بر عکس دوسری سوچ کے مالک لوگ یہ کہتے ہیں کہ پانچوں انگلیاں بھلے کیسے برابر ہو سکتی ہیں۔ قدیم دور کا انسان اس حوالے سے اچھا تھا کہ اسے پیاس لگتی تو چشمے سے پانی پی لیتا بھوک لگتی تو درختوں کے پھل کھا لیتا تھک جاتا تو درخت کے سائے میں پاں پھیلا کر سوجاتا اسے نہ کوئی غم امروز تھا نہ فکر فردا تھی نہ کوئی اس کا آقا نہ کوئی اس کا محکوم تھا۔یہ امر قانون قدرت کے خلاف ہے کہ بچہ بوڑھے پر حکم چلائے، شعور سے عاری شخص دانشور کی رہنمائی کرے اور مٹھی بھر آدمیوں کے پیٹ تو دنیا بھر کی نعمتوں سے بھرے ہوں اور بھوکی اکثریت زندگی کی ضرورتوں کو ترسے۔قدرت نے ہر شخص کو آزاد اور مساوی پیدا کیا ہے۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ طبعی حالات کی وجہ سے انسانوں کے درمیان فرق پیدا ہوتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ قدرتی صلاحیتیں سب لوگوں میں قریب قریب یکساں ہوتی ہیں جو فرق ہمیں نظر آتا ہے وہ دراصل تعلیم و تربیت اور معیار زندگی کے فرق کا نتیجہ ہے اگر سب لوگوں کو مساوی سہولتیں حاصل ہوں گی اور ان کا معیار زندگی بہتر ہوگا تو ان کی خداداد قابلیتیں یکساں طور پر اُجا گرہوں گی مختلف معاشی نظاموں میں غربت مٹانے کیلئے مختلف طریقے اپنائے جاتے ہیں اشتراکی نظام کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ذاتی استعمال کی چیزوں کے علاوہ تمام ذاتی ملکیت ریا ست کی تحویل میں لے لی جائے اور یہ ہے کہ ہر شخص کو ریاست روزگار فراہم کرے اور اس کے اخراجات کی کفیل ہوجبکہ ہر انسان اپنی جسمانی قوت اپنی عمر اور اپنی لیاقت کے مطابق معاشرے کی خدمت کرے یاد رہے کہ ذاتی ملکیت دو قسم کی ہوتی ہے ایک وہ جو روزانہ ہمارے استعمال میں آتی ہے ہم جیسا کہ کھانا برتن بھانڈے گھر کا فرنیچر گھڑی ریڈیو ٹی وی سیٹ سائیکل موٹر کار وغیرہ اور دوسری وہ جس کے ذریعے ہم دوسروں کی محنت سے نفع کماتے ہیں مثلا فیکٹریاں ملیں زمین بینک دھات کی کانیں جہاز ریل گاڑیاں وغیرہ وغیرہ ہر شخص کو پہلی قسم کی ملکیت زیادہ سے زیادہ ملنی چاہئے لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب دوسری قسم کی ذاتی ملکیت کو جن پر چند افراد قابض ہیں۔ پورے معاشرے کی مشترکہ ملکیت میں بدل دیا جائے دوسری طرف سرمایہ دارانہ نظام کے حامیوں کا خیال ہے کہ اگر ذاتی ملکیت منسوخ کر دی گئی تو سارے کام بند ہو جائیں گے اور سوسائٹی کاہل اور بے عمل ہو جائے گی اگر یہ بات درست ہوتی تو اشتراکی سوسائٹی کاہلی کے کارن کب کی ستیاناس ہو گئی ہوتی خدا لگتی یہ ہے کہ اشتراکی سوسائٹی میں جو لوگ کام کرتے ہیں ان کے ہاتھ کچھ نہیں آتا اور جن کو سب کچھ ملتا ہے وہ کام نہیں کرتے اس کے علاوہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انسان نے زندگی کے مختلف شعبوں میں اب تک جو بڑے بڑے کام کیے وہ ذاتی ملکیت میں اضافہ کرنے کی غرض سے نہیں کیے سائنسی دانوں نے ایجادات ہوس زر کی تسکین کیلئے نہیں کیں اور نہ ہی فلسفیوں نے نظریات اس لئے وضع کیے کہ وہ فیکٹریوں کے مالک بن جائیں۔ بلکہ وہ معاشرے میں خاص رویوں اور اخلاق کو پروان چڑھانے کی کوشش میں ہوتے ہیں جو بجائے خود ایک اہم کام ہے۔ اس تناظر میں یہ کہنا مناسب ہے کہ اعتدال اور میانہ روی بہترین اصول ہے یعنی ذاتی ملکیت اور معاشرتی ذمہ داریوں کے درمیان حسین امتزاج ہونا چاہئے۔