حسین امتزاج 

تاجکستان کی حکومت نے اپنی سر زمین پر چین کو افغانستان کی سرحد کے قریب ایک فوجی اڈے کی تعمیر کی جو اجازت اگلے روز دی ہے اس کی ایک سے زیادہ وجوہات ہیں ایک تو یہ کہ افغانستان کی سرحد کے قریب بیٹھ کر چین سی پیک اور ون بیلٹ ون روڈ کے تحت افغانستان میں جو ترقیاتی کام کروائے گا اس کی بخوبی نگرانی کی جا سکے گی اور دوسری یہ کہ اس ترقیاتی عمل کو ناکام کرنے کیلئے ہر امریکی چال کا اس فوجی اڈے کی موجودگی سے سد باب کیا جا سکے گا۔ امر صالح جیسے طالبان کے سیاسی باغیوں کا بھی اس سے پتا کٹ گیا ہے کیونکہ وہ تو تاجکستان میں پناہ لے کر وہاں باغی حکومت بنانے کے خواب دیکھ رہے تھے یاد رہے کہ تاجکستان ان وسطی ایشیائی ریاستوں میں شامل ہے کہ جو کبھی سابق سوویت یونین کا حصہ ہوا کرتی تھیں اور جنہیں پھر امریکن سی آئی اے نے اپنی سازشوں سے سوویت یونین سے جدا کر دیا تھا۔روس کے صدر پیوٹن نے کمال ہوشیاری اور سیاسی مہارت سے ان وسطی ریاستوں میں ایک مرتبہ پھر اپنے ملک کیلئے خیر سگالی کا جذبہ پیدا کیا ہے اور آج یہ تمام وسطی ایشیا کی ریاستیں روس کیلئے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتی ہیں بلکہ ان میں سے ایک نے تو یہ بھی کہہ دیا ہے کہ اسے دوبارہ روس کا حصہ بننے میں کوئی اعتراض نہیں تاجکستان میں چین کو جو فوجی اڈا بنانے کی اجازت ملی ہے اس میں یقینا روس کی آشیر باد شامل ہے کیونکہ آج روس اور وسطی ایشیا کے تمام ممالک آپس میں اس قدر شیرو شکر ہو چکے ہیں کہ وہ اپنے خارجہ امور میں کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے روس کی رضامندی حاصل کرنا ضروری تصور کرتے ہیں امریکہ کی دشمنی نے روس کو چین کے کافی نزدیک کردیا ہے اور اس قسم کی دوستی کا مظاہرہ ماضی میں کبھی دیکھنے میں نہیں آیا ہے قارئین کو اچھی طرح یاد ہوگا کہ ماضی میں یعنی 1980  سے پہلے سوویت یونین اور چین کے درمیان اتنی گرم جوشی کبھی دیکھنے میں نہیں آئی کہ جتنی آج ہم دیکھ رہے ہیں حالانکہ سوویت یونین اور چین دونوں ہی سیاسی امور میں ہمیشہ امریکہ کے سیاسی حریف رہے ہیں پر ماضی اور حال میں فرق یہ ہے کہ 1990 تک اس حقیقت کے باوجود کہ چین امریکہ کو اپنا دشمن تصور کرتا ہے وہ بڑی خاموشی کے ساتھ اپنے تعلیمی نظام اپنی معیشت اپنی زراعت اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کی ترقی کی کوششوں میں مشغول رہا اور اس نے اپنے سیاسی مخالف ممالک سے پنگا لینے سے گریز کیا اور یہ کوشش کی کہ اس کی تمام تر توجہ اور انرجی صرف اور صرف اس کی معاشی حالت میں بہتری لانے کی کاوش کی طرف ہی مبذول رہے روس اور چین میں گزشتہ پندرہ بیس برسوں سے جو سیاسی قیادت بر سر اقتدار آئی ہے اس نے کمال دانشمندی سے اپنی اپنی معاشی پالیسیاں آج کے وقت موقع اور محل کے مطابق وضع کی ہیں انہوں نے کسی معاملے کو اپنی انا کا مسئلہ نہیں بنایا اگر انہوں نے محسوس کیا کہ فلاں فلاں جگہ مغرب میں لاگو معاشی پالیسی کی طرح کا کوئی نظام ان کے ہاں بھی اگر رائج کر دیا جاے تو ان کے عوام کی حالت میں بھی بہتری آ سکتی ہے تو انہوں نے اسے اپنے اپنے ملک میں لاگو کرنے میں دیر نہیں لگائی قصہ کوتاہ انہوں نے اگر سر مایہ دارانہ نظام کی کسی شق کو بہتر سمجھا تو اسے اپنانے میں کوئی گریز نہیں کیا اس طرح ان دو ممالک نے اپنے ہاں مکسڈ اکانومی کا نظام رائج کیا بالفاظ دیگر انہوں نے اشتراکی معاشی نظام اور سرمایہ دارانہ معاشی نظام کے امتزاج سے ایک جامع معاشی نظام وضع کیا کہ جس سے آج ان دونوں ممالک کے عوام استفادہ کر رہے ہیں یاد رہے کہ اس قسم کا ایک تجربہ یوگوسلاویہ نے بھی کیا تھا کہ جب وہاں مارشل ٹیٹو بر سر اقتدار تھے جس سے اس ملک کی معاشی حالت کافی بہتر ہو گئی تھی۔