ممنوعہ بور کا اسلحہ

امریکہ اور ترکی کے صدور کی حالیہ ملاقات سے ان دو ملکوں میں کافی حد تک کشیدگی میں کمی کے امکانات ظاہر کئے جاتے رہے تاہم باخبر ذرائع بتا رہے ہیں کہ امریکہ اب بھی اس بات پر ترکی سے نالاں ہے کہ وہ کیوں روس سے جدید ترین اسلحہ خرید رہا ہے اور کئی معاملات پر ترکی اور امریکہ کے درمیان اختلافات برقرارہیں۔ترکی اور امریکہ کا ایف سولہ طیاروں کے حوالے سے بھی کو تنازعہ چل رہا ہے۔اور ترکی کے صدر امریکی صدر سے ملاقات کے بعد وہاں پر ماحولیاتی کانفرنس میں شرکت کئے بغیر وطن واپس لوٹے اور فی الحال اس کی کوئی وجہ بھی نہیں بتائی گئی۔ اسی طرح ترکی کے صدر اور فرانس کے صدر کے درمیان بھی اگلے روز جو ملاقات ہوئی ہے سیاسی مبصرین کے مطابق اس ملاقات کی وجہ سے ان دونوں ممالک میں اگرچہ کشیدگی کی فضا میں کچھ کمی نظر آ رہی ہے،مگر یہاں بھی پوری طرح ہم آہنگی نظر نہیں آرہی۔یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس وقت عالمی سطح پر ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کی فضاء نمایاں ہے۔ اس جملہ معترضہ کے بعد اب آتے ہیں ایک نہایت ہی اہم مسئلے کی طرف جس کے بارے میں نہ ماضی میں کسی حکومت نے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے اور نہ آج اس طرف خاطر خواہ توجہ دی جارہی ہے اور اس غفلت کی وجہ سے روزانہ کئی جانوں کا ضیاع ہو رہاہے۔ اس بات میں تو کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ اس ملک میں آٹومیٹک اسلحے تلک جب عام آدمی کی رسائی نہ تھی تو اس ملک کے اندر قتل و غارت کی وارداتوں میں اتنا اضافہ نہیں ہوا تھا کہ جتنا آج ہو چکا ہے۔ آٹومیٹک اسلحہ سے ہماری مراد ممنوعہ بور کا اسلحہ ہے جیسے کہ کلاشنکوف وغیرہ۔ ہماری دانست میں ممنوعہ بور کا اسلحہ صرف اور صرف سیکورٹی اہلکاروں کے زیر استعمال ہونا چاہیئے۔عام آدمی کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہونا چاہئے۔اگر کوئی شخص دشمن دار ہے اور وہ اپنی جان کی حفاظت کیلئے اسلحہ رکھنا چاہتا ہے تو اسے اس علاقے کا ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کہ جس علاقے میں وہ رہائش پذیر ہے غیر ممنوعہ بور کے پستول یا ریوالور کا لائسنس جاری کر سکتا ہے۔ اس ضمن میں حکومت کو مرحلہ وار درج ذیل اقدامات اٹھانے ہوں گے مثلا پہلے مرحلے میں اگر کسی قانون سازی کی ضرورت ہے تو وہ فوراً سے پیشتر کی جائے۔ اس کے بعد حکومت میڈیا کے ذریعے اعلان عام کرے کہ جس شخص کے پاس اگر کوئی ممنوعہ بور کا لائسنس دار یا بغیر لائسنس اسلحہ موجودہے تو وہ اسے ایک ماہ کے اندر اندر اپنے متعلقہ پولیس سٹیشن میں تھانے دار کے پاس جمع کرا دے جس کے بدلے میں اسے تھانے دار ایک پکی رسید دے گا اگر اس نے ایسا نہ کیا اور اس کے پاس ممنوعہ بور کا اسلحہ ایک ماہ کے بعد برآمدہوا تو نہ صرف اسے 20 لاکھ روپے جرمانہ ہو سکتا ہے بلکہ اسے دس سال قید بامشقت بھی دی جا سکتی ہے اس ضمن میں جو قانون سازی کی جائے اس میں پولیس کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ کسی بھی گاڑی کی تلاشی لے سکے یا شک کی بنا پر کسی بھی عمارت یا گھر کی تلاشی لے سکے اس ضمن میں جو اسلحہ بھی پولیس سٹیشن میں جمع ہو اس کے بارے میں حکومت ایک کمیٹی بنائے اور اس کی مارکیٹ ویلیو متعین کرکے اس کی قیمت اس کے مالک کے حوالے کی جائے اس طریقے سے جو ممنوعہ اسلحہ حکومت حاصل کرے۔ اسے سیکورٹی اہلکاروں کے استعمال میں لایا جائے اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی قسم کا بھی جرم کیوں نہ ہو اس کی شدت اور اس شرح میں اضافے کی بڑی وجہ ممنوعہ بور کے اسلحہ کی بہ آسانی دستیابی ہے۔ آج شاید ہی اس ملک میں کوئی ایسا گھر ہو کہ جس میں کلاشنکوف یا کسی اور قسم کا آٹومیٹک اسلحہ نہ پایا جاتا ہو تجربہ بتاتا ہے کہ اراضیات کی ملکیت یا تقسیم پر اگر دو فریقین میں جھگڑا ہو یا کوئی اور واقعہ رونما ہو تو اس میں آٹومیٹک اسلحہ کے استعمال سے درجنوں لوگ جن میں بے گناہ راہ گیر بھی شامل ہیں لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ مندرجہ بالا تجویز چونکہ عوام دوست ہے اس لئے ہمیں یقین ہے کہ اس ملک کی اکثریت دل و جان سے اس کی حمایت کرے گی کیوں کہ وہ چاہتی ہے کہ حکومت اس پر مکمل طور پر عمل کرے تاکہ ملک میں ممنوعہ بور کے اسلحے کے استعمال سے جو بے پناہ ہلاکتیں ہو رہی ہیں ان کا تدارک ہو سکے۔