ہزاروں خواہشیں ایسی کہ۔۔۔

شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ ”ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے“ بالکل اسی طرح جامعہ پشاور کے ماسٹر گریجویٹس کی یہ خواہش بھی حسب سابق اس بار بھی پوری نہ ہو سکی کہ وہ چانسلر کے ہاتھ سے ڈگری اور میڈل لیکر اس کی تصویر یادگار کے طورپر اپنے پاس محفوظ رکھیں گے البتہ یہ ضرور ہوا کہ گزشتہ سال کورونا کے ہاتھوں جو جلسہ تقسیم اسناد منسوخ ہوا تھا وہ حسب روایت یونیورسٹی کے یوم تاسیس 30اکتوبر یا فاؤنڈیشن ڈے پر منعقد ہوا اور گریجویٹس نے جن میں زیادہ تعداد خواتین یا طالبات کی تھی گورنر کی بجائے وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی برائے اعلیٰ تعلیم و اطلاعات کامران خان بنگش اور وائس چانسلر ڈاکٹر محمد ادریس خان سے ڈگریاں اور میڈل وصول کرلئے حسب سابق امسال بھی کانووکیشن پر ہونیوالے مالی بوجھ کو گریجویٹس ہی نے اٹھالیا جس کیلئے انہوں نے رجسٹریشن کی مہنگائی کے مطابق معقول فیس ادا کردی ہر گولڈ میڈلسٹ کیلئے نقد انعام بھی جامعہ کی روایت رہی ہے جس کی بنیاد ڈاکٹر حافظ ثناء اللہ کی ٹریژری کے وقت سے ڈالی گئی ہے موصوف کا کہنا تھا کہ میڈل پر ہونیوالے خرچے کو نصف کرکے وہ ہر گریجویٹ کو نقد انعام کی شکل میں دیا جائے تاکہ ان کے جیب خرچ میں مدد دے سکے شعبہ امتحانات کے مطابق30اکتوبر2021 کو دی گئی ڈگریاں اور میڈلز2016ء  اور اسکے بعد کے تعلیمی سیشن کے تھے فی الوقت یہ معلوم نہ ہو سکا کہ گولڈ میڈلسٹ گریجویٹس کو مذکورہ نقدانعام موقع پر دینے کی روایت برقرار رہی یا بعد میں دیا جائیگا؟ کانووکیشن کے دوران ایک حوصلہ افزاء منظر یہ سامنے آیا کہ پولیس اور یونیورسٹی انتظامیہ نہایت سریع الحرکت یا بزبان انگریزی کوئیک نظر آئی کیا بہتر ہوگا کہ یونیورسٹی کیمپس کا نصیب جاگ جائے اور یہ کانووکیشن والی چابکدستی برقرار رہے کانووکیشن کیلئے تشکیل دی جانیوالی مختلف کمیٹیوں نے اپنی ذمہ داریاں بطریق احسن انجام دیں تاہم سب سے زیادہ بہتر کام کنٹرولر امتحانات ڈاکٹر سید فضل ہادی کی قیادت میں ڈپٹی کنٹرولر امتحانات اختر امین‘ڈپٹی کنٹرولر سیکریسی فضل امان‘ سپرنٹنڈنٹ ڈگری سیکشن عرش اللہ جان‘ عصمت جان اور ندیم خان پر مشتمل کمیٹی نے انجام دیا جو کہ شعبہ امتحانات میں کانووکیشن کے دفتری کام نمٹانے کے بعد مسلسل تین دن جامعہ کے کانووکیشن ہال میں موجود رہے اس طرح خواتین اساتذہ پراکٹرز میں لاء کالج کی پروفیسر ثوبیہ بشیر اللہ خان اور ہوم اکنامکس کالج کی ڈاکٹر ظل ہما مجیب اورڈاکٹر کوثر تکریم کی موجودگی اور کام کا ذکر نہ کرنا بھی انصاف نہ ہوگا۔جلسہ تقسیم اسناد سے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد ادریس اور معاون خصوصی کامران بنگش نے جن خیالات کا اظہار اور جس عزم کا اعادہ کیا اللہ کرے کہ وہ مستقبل قریب میں عملی شکل میں سامنے آجائے ویسے جامعات کا سب سے بڑا مسئلہ اس وقت مالی ابتری کا ہے جس کیلئے حکومت اور قوم دونوں کی مشترکہ کاوشیں اور مالی قربانی ناگزیر ہے اعلیٰ تعلیمی اداروں کو مالی بحران سے نکالنے کیلئے حکومت کو اپنے غیر ترقیاتی بالخصوص پروٹوکولی اخراجات کو گھٹا کر تعلیم کیلئے فنڈ مختص کرنا جبکہ گریڈ20 اور اس سے اوپر کے سرکاری ملازمین کی تنخواہ یا مراعات یعنی الاؤنسز سے محض ایک یا دو فیصد تعلیمی انڈومنٹ فنڈ کیلئے ٹیکس کاٹ کر اکٹھاکرنے جیسے مشنری اقدامات کرنے ہونگے جس کا نتیجہ مستقبل قریب میں تعلیمی بحران کے خاتمے کی شکل میں سامنے آئیگا اصلاحات کی ضرورت اور افادیت اپنی جگہ لیکن اگر یہ کوشش محض کٹوتی کی شکل میں ہو تو ایسی ہر کوشش اساتذہ اور نان ٹیچنگ سٹاف کی تائیدوحمایت سے محروم رہے گی فی الوقت تو صورتحال یہ ہے کہ پنشن کا مسئلہ یونیورسٹیوں بالخصوص پشاور یونیورسٹی جیسی پرانی جامعات کیلئے ایک بہت بڑا ناقابل برداشت بوجھ بن گیا ہے اور حکومتی تعاون کا یہ عالم ہے کہ بجٹ میں جس10فیصد اضافے کا اعلان کیا گیا ہے اس کی ادائیگی کیلئے تاحال یونیورسٹیوں کو گرانٹ نہیں ملی اور ملازمین کے سیخ پا ہونے کی کیفیت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔