ملکی اور بین الاقوامی منظر نامہ

ملک میں اس وقت سیاسی مفاہمت کی جس قدر ضرورت ہے شاید ہی کبھی رہی ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ قومی اہمیت کے معاملات پر حکومت اور حزب اختلاف میں فاصلے کم ہوں ان ابتدائی کلمات کے بعد ہم ان بین الاقوامی مسائل کا تھوڑا سا ذکر کرنا چاہیں گے کہ جو سر دست تصفیہ طلب ہیں سوڈان میں حال ہی میں جو بغاوت ہوئی ہے اس کا ابھی تک کوئی سر پیر نظر نہیں آ رہا کیونکہ جس رہنما کو فوج نے بزور شمشیر اقتدار سے معزول کیا ہے اس سے امریکہ اور اس کے دیگر اتحادی ممالک کے سفرا ء ملاقاتیں کر رہے ہیں یہاں تک کہ اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کے اہلکاروں نے بھی ان سے ملاقات کی ہے نظر یہ آ رہا ہے کہ شاید یہ بغاوت کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکے ادھر لبنان کی صورتحال بھی اس لحاظ سے سے تشویشناک ہے کہ اس کی معاشی حالت پہلے ہی سے بڑی پتلی تھی اور سعودی عرب نے اس کی مالی امداد کے ذریعے اسے کافی حد تک سنبھال رکھا تھا اب جبکہ سعودی عرب نے اس امداد سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ہے تو لبنان معاشی بدحالی کا شکار ہو سکتا ہے۔ چین اور بھارت کے سرحدی تنازعات اور اسی طرح چین اور تائیوان کے درمیان تلخیاں کم ہونے کے بجائے کافی بڑھ گئی ہیں پچھلے سال سردیوں کے موسم میں بھارت اور چین اور آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان سرحدی جھڑپیں ہوئی تھیں کیا تاریخ اپنے آپ کو کو امسال سردی کے موسم میں دہرانے جارہی ہے اور کیا مستقبل قریب میں ان ممالک کے درمیان جھڑپوں کا پھر کوئی خدشہ ہے یہ سوالات دنیا میں امن کے شیدائیوں کو پریشان کر رہے ہیں اگر آپ پچھلے سال نومبر سے لیکر تا دم تحریر تک کے عرصے پر ایک نظر ڈالیں تو آپ اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں جو تنازعات پچھلے سال موجود تھے وہ آج بھی بدستور موجود ہیں اور وہ حل نہیں ہوئے جس طرح اس خطے میں جغرافیائی لحاظ سے پاکستان کی بہت بڑی اہمیت ہے بالکل اسی طرح انڈونیشیا بھی بحرالکاہل کے علاقے میں اپنے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے عالمی سیاست میں بڑی اہمیت کا حامل ہے اگلے روز امریکی صدر بائیڈن کی انڈونیشیا کے صدر سے ملاقات کو بڑی اہمیت دی جا رہی ہے امریکہ اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کی خاطر انڈونیشیا پر ہاتھ پھیر رہا ہے جس طریقے سے بھارت افغانستان سے راندہ درگاہ ہوا ہے اس کی مثال اس کی گزشتہ 72 سال کی تاریخ میں بالکل نہیں ملتی یہ غالباً پہلی مرتبہ ہے کہ افغانستان کے معاملے میں نہ اسے کابل میں قائم طالبان کی حکومت کوئی گھاس ڈال رہی ہے اور نہ ایران روس چین یا اس خطے میں واقع کوئی اور ملک اس معاملے میں اس کی کسی بات پر اپنا کان دھر رہا ہے ویسے بھارت ہاتھ پیر تو بہت مار رہا ہے کہ وہ کسی نہ کسی طریقے سے افغانستان میں دوبارہ اپنے قدم جمائے اگلے چند روز میں نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر کی سطح پر بھارت نے دہلی میں ایک کانفرنس بلانے کا اعلان کیا ہے پر نظر یہ آ رہا ہے کہ اس میں شاید نہ چین شرکت کرے اور نہ روس اس خطے کے دیگر ممالک کی بھی اس کانفرنس میں شرکت غیر یقینی نظر آرہی ہے پاکستان نے تو پہلے ہی سے اس کانفرنس میں یہ کہہ کر شرکت کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ کیونکہ بھارت کا کردار کسی بھی حوالے سے امن اور استحکام کے حق میں نہیں بلکہ ہمیشہ سے اس نے بدامنی اور کشیدگی سے فائدہ اٹھایا ہے جب سے مودی سرکار وجود میں آئی ہے تو اس نے پاکستان دشمنی کی بنیاد پر ووٹ لینے کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے اورآر ایس ایس کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی اب کسی سے پوشیدہ نہیں اور پوری دنیا جان گئی ہے کہ بھارت نام نہاد جمہوریت کا لباد ہ اوڑ ھ کر انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں کر رہا ہے اور عالمی برادری کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ معاملات میں انسانی حقوق کو مقدم رکھے نہ کہ مارکیٹ اور منڈی کے اصولوں کو۔