اعتدال اور میانہ روی

جدید تاریخ کے مختلف ادوار میں ایسے سیاسی رہنما پیدا ہوتے آ ئے ہیں کہ جو غریبوں کیلئے درد دل رکھتے تھے اور جنہوں نے اپنی ساری زندگی اس جدوجہد میں خرچ کردی کہ دنیا میں معاشی مساوات ہو ایسا نظام حکومت رائج کیا جاے کہ جس میں کوئی کسی کا معاشی استحصال نہ کر سکے ہر کسی کو برابری کی بنیاد پر زندگی کی بنیادی سہولتیں فراہم کی جائیں کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ آج اگر دنیا کے مفلوق الحال اور غریب انسان ان انقلابی لیڈروں سے محبت کرتے ہیں تو محض اس وجہ سے کرتے ہیں کہ انہوں نے سرمایہ دارانہ نظام معیشت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تھا۔ ان میں کئی اپنے مشن میں کامیاب بھی ہوئے اور کئی اپنے مشن کی تکمیل کی راہ میں جان بھی دے گئے۔ معاشی انصاف کے حصول کیلئے جنگ ابھی جاری ہے دنیا کے ہر ملک میں وہ اقلیتی ٹولہ جو سرمایہ دارانہ نظام معیشت کے بل بوتے پر دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہا ہے اس کی کوشش ہے کہ اس کا یہ پروردہ نظام جاری و ساری رہے کہ جس کے وہ مزے لوٹ رہاہے۔ اس ملک کی حالت اس وقت تک سدھر نہیں سکتی کہ جب تک عام آدمی کے مفادات کو مقدم نہیں سمجھا جاتا۔ یہ درست ہے کہ ہر معاشرے میں ہم کو ان دونوں قسم کے افراد ملتے ہیں ایک سرمایہ رکھنے والے اور دوسرے محنت کرنے والے، تاہم سرمایہ رکھنے والے اگر محنت کرنے والوں کی خدمات سے فائدہ اٹھائیں اور ان کو اپنی محنت کا پورا صلہ دیں تو یہ نظام ملک و قوم کے مفاد میں کام کرتا ہے۔ تاہم دوسری طرف سرمایے کے ارتکاز کی تاریخ جو نقشہ پیش کرتی ہے اس میں دولت کے سفینے محنت کشوں کے خون پسینے میں رواں نظر آتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھا جائے یا ایک دوسرے کا احساس کیا جائے تو نہ کوئی سرمایہ کار اپنے مزدوروں کی حق تلفی کریگا اور نہ ہی مزدور اور محنت کش اس کے سرمایے کے ضائع ہونے کے باعث بننا پسند کریں گے۔ اس وقت دیکھا جائے تو ایک ایسا متعدل اور میانہ روی کا نظام ہی ان تمام مسائل کا حل ہے جس میں ایک طرف اگر سرمایے کو تحفظ ملے تو دوسری طرف سرمایہ کار کو محنت کش کے حقوق صلب کرنے سے بھی روکے۔ اسلام کا معاشی نظام حقیقت میں وہ حل ہے جو جبر و زور کے ذریعے سرمائے کو بڑھانے والوں کو بھی روکتا ہے اور محنت کرنے والوں کو بھی ہر طرح سے خوشحالی اور حقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک حکومت یا انتظامیہ کی اولین ذمہ داری معاشرے کے ہر فرد کے حقوق اور اس کی بنیادی ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔کوئی بھی رعایا اس وقت تک خوش اور مطمئن نہیں ہوسکتی جب تک وہ لوگ جو ان پر حکومت کرتے ہیں وہ بھی اپنے اوپر قانون اور قواعد کو ایسے ہی لاگر کریں جس طرح ایک عام آدمی پر لاگو ہیں۔ایسے ہی حالات کسی ملک یا معاشرے کو مثالی اور فلاحی بنا سکتے ہیں۔