ملکی اور عالمی سیاسی منظرنامہ 

خوشی کی بات یہ ہے کہ برطانیہ نے کورونا وائرس کا تریاق دریافت کر لیا ہے اور اس وبا ء سے بچنے کے لئے ایک کیپسول کو مارکیٹ میں متعارف کرا دیاہے اس سے پیشتر برطانیہ ہی وہ پہلا ملک تھا کہ جس کے طبی ماہرین نے اس وبا ء کی ویکسین کو مارکیٹ میں متعارف کرا کر دنیا کے کروڑوں انسانوں کی جانیں بچائی تھیں‘اغیار نے طب اور دیگر سائنسی علوم میں جو حیرت انگیز ترقی کی ہے وہ قابل تحسین ہے افسوس کہ ہم اس معاملے میں ان سے کافی پیچھے رہ گئے ہیں اور اب بھی ایسی ایسی خرافات میں گرفتار ہیں کہ جن کو دیکھ کر ہر ذی شعور انسان کا دل دکھتا ہے اب دیکھنا یہ ہے اس نئی ایجاد کی قیمت خرید کتنی ہو گی‘ مالدار ممالک کے عوام تو اس کیپسول کو بہ آ سانی خرید سکیں گے پر اگر اس کی قیمت خرید اگر زیادہ ہوئی اس ملک کے عوام کی جیب تو شاید ہی اسے برداشت کر سکے‘ اپوزیشن کی جماعتوں کی دانست میں ملک کے اندر عوام میں مہنگائی کی وجہ سے پھیلی ہوئی بے چینی کے سبب موجودہ وقت اس بات کیلئے نہایت موزوں ہے کہ وہ جلسوں‘جلوسوں اور دوسرے سیاسی حربوں سے حکومت پر فوری طور پر الیکشن کروانے کے لئے دباؤ ڈالیں اس بات کی البتہ کوئی گارنٹی نہیں دی جاسکتی اور نہ قطعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر ملک میں الیکشن ہوتے ہیں تو اس سے اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں کوئی خاص سیاسی فائدہ اٹھا بھی سکیں گی یا نہیں‘بین الاقوامی سیاسی افق پر بعض ایسے اہم واقعات وقوع پذیر ہوئے ہیں کہ جن کا ذکر ضروری ہے‘امریکہ کی سی آئی اے کے سربراہ اگلے روز اچانک ماسکو پہنچ گئے جہاں پر انہوں نے روس کی خفیہ ایجنسی ایف ایس بی کے سربراہ سے ملاقات کی اور بین الاقوامی میڈیا کے مطابق ا نہیں دبی زبان میں دھمکی دی ہے کہ بہتر ہو گا اگر روس یوکرائن کے معاملات میں مداخلت نہ کرے‘قارئین کی یاد دہانی کیلئے عرض ہے کہ یوکرائن بھی کچھ عرصہ قبل تک سابقہ سوویت یونین کا ایک حصہ تھا جو دوسری وسطی ایشیاء کی ریاستوں کے سوویت یونین سے جدا ہو جانے کے ساتھ ساتھ ماسکو کے تسلط سے آزاد ہو گیا تھا‘اور اب ماسکو کی خواہش ہے کہ وہ دیگر ریاستوں کی طرح یوکرائن کو بھی دیگر ریاستوں کی طرح سوویت یونین کا دوبارہ حصہ بنائے۔ یہاں پر اس بات کا ذکر بھی بے جا نہ ہوگا کہ ماضی میں سوویت یونین کی خفیہ ایجنسی کا نام کے جی بی تھا‘روس کے موجودہ صدر پیوٹن کافی عرصے تک اس کے نہایت ہی اہم رکن رہے ہیں‘ جب سوویت یونین کا شیرازہ بکھرا تو کے جی بی کو توڑ کر اس کی جگہ FSB کے نام سے ایک نئی خفیہ ایجنسی کا وجود عمل میں لایا گیا ہے‘اگر ایک طرف روس کے صدر پیوٹن کی یہ کوشش ہے کہ وسطی ایشیا ء کی سابقہ ریاستیں بشمول یوکرائن جو کبھی سویت یونین کا حصہ تھیں دوبارہ اس کے ساتھ شامل ہو جائیں تو دوسری جانب امریکہ جو سویت یونین کو توڑنے میں پیش پیش تھا سرگرم عمل ہے کہ ایسا کبھی نہ کہ اس سے روس مزید مضبوط ہو جائے گا اب یہ بھی بڑی عجیب بات ہے کہ بعض ممالک جو بظاہر روس کے ساتھ دوستانہ مراسم رکھتے ہیں یوکرائن کے معاملے میں ان کی سوچ روس کی سوچ سے مختلف ہے مثلاً چین نے یوکرائن میں کافی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے اور ترکی بھی اندرون خانہ دل ہی دل میں یہ نہیں چاہتا کہ روس کا یوکرائن پر دوبارہ تسلط قائم ہو چین اور ترکی اس معاملے میں سیاسی طور پر بڑی احتیاط کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔