بھارت میں افغانستان کے حوالے سے سیکورٹی ایڈوائزر کی سطح کے ایک کانفرنس کے انعقاد کا بنیادی مطلب تو یہ نظر آ رہا ہے کہ وہ افغانستان کے معاملات میں جس سفارتی تنہائی کا شکار ہے اسے کسی نہ کسی طریقے سے ختم کیا جائے اور اس کانفرنس کے افغانستان پر کچھ اثرات مرتب ہونے کا کوئی قوی امکان نہیں۔ دوسری طرف طالبان بھرپور کوشش کر رہے ہیں کہ اپنے ملک کے حالات کو بہتر کریں اور زندگی کے مختلف شعبوں میں وہ دھیرے دھیرے کافی سوچ بچار کے بعد مثبت پیش قدمی کر رہے ہیں لہٰذا دنیا کے دیگر ممالک پر یہ لازم ہے کہ ان کے بارے میں کوئی بھی حتمی رائے قائم کرنے سے پہلے صبر اور انتظار کا دامن نہ چھوڑیں سردست افغانستان میں اکا دکا دہشت گردی کے واقعات رو نما ہو رہے ہیں جن سے اس شک کو تقویت ملتی ہے کہ بعض قوتیں یہ کوشش کر رہی ہیں کہ افغانستان کے حالات بالکل ٹھیک نہ ہوں اگلے روز افغانستان کے صوبے ننگرہار کے صدر مقام جلال آباد میں دو دھماکوں میں دو افراد جان بحق ہوئے۔ دھماکے ایک پولیس چوکی کے باہر ہوئے گو کہ اس حملے کی ذمہ داری تاحال کسی نے قبول نہیں کی پر طالبان حکام کا کہنا ہے کہ یہ دہشت گرد تنظیم داعش کی کاروائی ہو سکتی ہے۔ صرف افغانستان ہی نہیں دنیا کے کئی ممالک خلفشار کا بری طرح شکار دکھائی دیتے ہیں خود بھارت اندرونی طور ہر انتشار سے متاثر ہے۔ سکھ کسان مضطرب ہیں‘ اسام اروناچل پردیش وغیرہ میں سیاسی ہلچل اور بے چینی ہے‘ چین کے ساتھ بھارت کے سرحدی تنازعے نے سر اٹھایا ہواہے‘ بنگلہ دیش‘ میانمار‘ عراق‘ لبنان‘ سوڈان‘حبشہ اور اریٹیریا میں اضطراب ہے۔ ا ذربائیجان اور آرمینیا مشت و گریباں ہیں۔ ترکی اور شام کے درمیان معاملات کو بھی تسلی بخش قرار نہیں دیا جاسکتا۔ تائیوان اور چین کے درمیان کسی وقت بھی مسلح جھڑپ ہو سکتی ہے روسی صدر پیوٹن وسطی ایشیا کی ریاستوں کو رام کر رہے ہیں کہ وہ دوبارہ روس کے ساتھ مل کر سابقہ سوویت یونین جیسا کوئی نظام مرتب کریں جبکہ امریکہ کی یہ بھرپور کوشش ہے کہ ایسا بالکل نہ ہو اور اور جو ممالک سابقہ سوویت یونین سے جدا ہو کر علیحدہ ملک بن گئے ہیں وہ دوبارہ روس کے ساتھ کسی صورت میں بھی الحاق نہ کریں چنانچہ روس اور امریکہ کے درمیان اس معاملے میں کشمکش دن بدن زور پکڑ رہی ہے۔ امریکہ کا ہمیشہ سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ تیسری دنیا کے کسی بھی معاشی طور ہر پسماندہ ملک سے اگر وہ کوہی ناجائز کام کروانا چاہے اور اس ملک کے حکمران اس کی بات پر کان نہ دھریں تو پھر وہ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے ذریعے اس کے کان مروڑتا ہے اور اسے مجبور کرتا ہے کہ وہ اس کی ہر جائز اور ناجائز بات کو کسی چوں چراں کے بغیر تسلیم کرے۔اب جب کہ آ ئی ایم ایف کا ذکر چھڑ ہی گیا ہے تو کیوں نہ دو چار مزید باتیں اس کے بارے میں ہو جائیں ماہرین معاشیات کی ایک اکثریت کا یہ خیال ہے کہ اگر تو ہمارے ارباب اختیار پاکستان اور عوام کے مسائل کا کوئی حل چاہتے ہیں تو سب سے پہلے انہیں آئی ایم ایف سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا گو کہ ایسا کرنا کوئی آسان نہیں‘ اس مقصد کیلئے حکومت کو اپنے اخراجات انقلابی اقدامات سے کم کرناہوں گے اس کے ساتھ ساتھ ایسے منصوبے پروان چڑھانے کی ضرورت ہے جو درآمدات پر انحصار کو کم کرنے میں مدد دیں۔