قیام امن کیلئے ایک اور کوشش

کالعدم تحریک طالبان(ٹی ٹی پی) اور ریاست پاکستان کے درمیان مذاکراتی عمل کا باقاعدہ آغاز ہوچکا ہے‘ ٹی ٹی پی نے اس ضمن میں ایک باقاعدہ بیان کے ذریعے سیز فائر کا اعلان کر دیا ہے جبکہ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے مذاکرات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ مجوزہ مذاکرات پاکستان کے آئین اور قانون کے مطابق کئے جارہے ہیں دوسری طرف معتبر باخبر ذرائع کا دعویٰ ہے کہ مذاکراتی عمل کے باقاعدہ آغاز اورسیز فائر کے فیصلے میں افغانستان کی موجودہ عبوری حکومت نے بنیادی کردار ادا کیا ہے اور افغان طالبان ہی فریقین کے درمیان مصالحت کاری کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ اس عمل کا آغاز جون 2021ء میں کیا گیا تھا پاکستان کے بعض سیاسی حلقے اس خبر پر اعتراضات اٹھاتے دکھائی دے رہے ہیں تاہم دوسری طرف مذاکرات کے حامی حلقوں کا موقف ہے کہ اگر امریکہ‘ نیٹو اور سابق افغان حکومت ماضی قریب میں افغان طالبان کے ساتھ انکے مسلسل حملوں کے باوجود مذاکرات کرسکتی تھیں اور اس عمل کو عالمی برادری کی حمایت حاصل تھی تو اگر ٹی ٹی پی مزاحمت سے باز آتی ہے اور اس کا خطرہ مستقل طورپر ٹل سکتا ہے تو مذاکرات کرنے میں کیا قباحت ہے دونوں آراء کا اپنا اپنا الگ پس منظر موجود ہے تاہم اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ ہر جنگ یا مزاحمت کے دوران ایسا مرحلہ ہر صورت میں آن پہنچتا ہے جب فریقین بوجوہ مذاکرات کی میز پر بیٹھ ہی جاتے ہیں اور ایسا کرنے کا واحد مقصد یا ہدف ماضی پر بحث کرنے کی بجائے حال اور مستقبل کومحفوظ اور پرامن بنانا ہوتا ہے اس سے قبل سال2002ء سے لیکر سال2013ء تک پاکستان کی مختلف حکومتوں اور اس طرح کے مسلح گروپوں کے درمیان تقریباً21 چھوٹے بڑے معاہدے ہو چکے ہیں سب سے اہم معاہدہ پیپلز پارٹی اور اے این پی کی حکومت کا کرایا گیا وہ معاہدہ تھا جسے سوات معاہدے کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس سوال کا جواب ڈھونڈنا بھی کافی مشکل ہے کہ اگر ٹی ٹی پی بوجوہ مذاکرات سیز فائر یا کسی اور آپشن پر آمادہ ہوگئی ہے تو حکومت اس صورتحال سے فائدہ کیوں نہ اٹھائے؟ ماضی کے معاہدوں اور حالیہ مجوزہ کوشش کے درمیان ایک بڑا فرق یہ ہے کہ اب کے بار افغان حکومت اور امارات اسلامیہ کے بعض اہم ترین رہنما سہولت کاروں کے علاوہ گارنٹرز کے طورپر کردار ادا کر رہے ہیں اگر افغان قیادت اس ضمن میں بدلتے علاقائی تناظر میں اپنا مثبت کردار ادا کر رہی ہے اور ٹی ٹی پی پرتشدد حملوں اور دوسری سرگرمیوں سے باز آتی ہے تو اس میں برائی کیا ہے؟ ایک اور نکتہ افغانستان اور پاکستان میں داعش خراساں کی موجودگی اور سرگرمیوں سے متعلق ہے‘ اگر فریقین کسی معاہدے پر پہنچتے ہیں تو اس سے خطے میں داعش کا بڑھتا ہوا خطرہ کم ہو جائیگا اور پراکسیز کا راستہ روکنا بھی آسان ہوگا‘ جہاں تک بعض سیاسی حلقوں کی مخالفت کا تعلق ہے ان کو اعتماد میں لینا چاہئے‘ اس قسم کی صورتحال میں اعلیٰ عسکری قیادت سیاسی قوتوں کو اعتماد میں لیتی آئی ہے اور گزشتہ روز بھی افغانستان اور علاقائی سیکورٹی سمیت دیگر متعلقہ معاملات پر اعلیٰ عسکری قیادت نے قومی سلامتی کمیٹی کے پلیٹ فارم پر سیاسی‘ پارلیمانی قیادت کو اعتماد میں لیکر ان سے مشاورت کی ہے ایسے میں محض حکومت کی مخالفت کی آڑ میں ریاست کے وسیع تک قومی مفادات اور بعض فیصلوں کو تنقید کا نشانہ بنانے کی بجائے ضرورت اس بات کی ہے کہ حالات کا ادراک کرتے ہوئے حقیقت پسندانہ اور مثبت طرز عمل اختیار کیا جائے اور جتنی بھی مزاحتمی اور مسلح گروپ تشدد ترک کرکے آئین کے اندر اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے پر آمادہ ہوتی ہیں انکے ساتھ مذاکرات کئے جائیں‘ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں مذاکرات کے ذریعے ہی اس قسم کے مسائل کا حل نکالا گیا ہے اور افغانستان اس کی بہترین مثال ہے۔