آج کے کالم میں ہم نہایت ہی اہم قومی امور کی طرف حکام بالا اور اپوزیشن کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کریں گے کہ جن کو ان دونوں کے باہمی تعاون سے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ سیاسی اقتدار آنی جانی شے ہے ایک عام پاکستانی کیلئے ریاست پاکستان کی بقا اور اس کا وجود ہی سب سے مقدم چیز ہے۔خاکم بدہن اگر ملک ہی نہ رہا تو سیاستداں کہاں اور سیاست کہاں۔وقت کا تقاضا ہے کہ تمام سیاست دان اپنے اختلافات بالاے طاق رکھ کر دور اندیشی کا مظاہرہ کریں صرف آج کے بارے میں نہ سوچیں اپنے کل کی بھی فکر کریں۔ اپنے شارٹ ٹرم فوائد کی خاطر وہ وطن عزیز کے لانگ ٹرم فائدوں کو قربان نہ کریں۔ ان ممالک کے امن و عامہ کا خدا ہی حافظ ہوتا ہے کہ جن میں ہر سیاسی گروپ نے ڈنڈا بردار فورس بنا رکھی ہو۔ ریاست کے اندر دوسری ریاست کا وجود کسی بھی ملک کی بقا کیلئے سم قاتل سے کم نہیں ہوتا۔ آپ کے سامنے کئی ممالک خصوصا ًافریقہ کے ممالک کی مثالیں موجودہیں کہ جہاں اسی وجہ سے ان ممالک میں سیاسی استحکام کا ہمیشہ فقدان رہا کہ جن میں گروہی بنیاد پر ایک سے زیادہ جتھوں کا وجود تھا۔ ایک لمبے عرصے سے اس ملک کی خاموش اکثریت کی آنکھیں اس انتظار میں سفید ہو گئی ہیں کہ کوئی تو ایسا حکمران آئے کہ جو اس ملک میں ایسا نظام نافذ کرے کہ ہر شخص کو اس کے بنیادی شہری سہولیات میں حصہ ملے، بلا امتیاز اور بغیر کسی تخصیص کے۔ جس میں زندگی کی تمام سہولتیں اور معاش کے مواقع سب کو یکساں حاصل ہوں اس ملک کا عام آدمی آج بھی اس دن کے انتظار میں ہے کہ جب وطن عزیز کی وہ سونا اگُلنے والی زمین سے خاطر خواہ فائدہ اُٹھایا جائے۔ ہر کسی کو ایک اعتدال اور میانہ روی کے اندر رہتے ہوئے زندگی گزارنے کا موقع ملے۔ ایسا نہ ہو کہ کسی کو تو کھانے کو کچھ نہ ملے اور دوسرے کھانوں کو ضائع کرتے پھریں۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جہاں برتری کا معیار دولت اورروپیہ ہو وہاں یہ بات قریب قریب ناممکن ہے کہ عوام پر انصاف سے حکومت کی جا سکے اور وہ خوشحال اور آسودہ ہوں۔ اس ملک کا عام آدمی سکینڈے نیوین Scandinavian ممالک یعنی ناروے سویڈن اور ڈنمارک کی طرف دیکھتا ہے یا اس کی نظریں برطانیہ اور کینیڈا کی طرف جاتی ہیں کہ جہاں سوشل سکیورٹی کا ایسا بہترین نظام رائج ہے کہ۔ ہر پاکستانی اپنے آپ سے یہ سوال کرتا ہے کہ اگر اس قسم کی سہولیات منددجہ بالا ملکوں کے حکمران عام آدمی کیلئے فراہم کر سکتے ہیں تو ہمارے حکمران ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟ ماضی میں اس ملک کے سیاسی رہنما میثاق جمہوریت کے نام پر کئی معاہدے کرتے آئے ہیں کیا آج ضروری نہیں کہ ہماری حکومت اور اپوزیشن دونوں کے رہنما آ پس میں سر جوڑ کر بیٹھیں اور اس ملک کی بقا اور اس ملک کے عام آدمی کو زندگی کی بنیادی سہولتیں مہیا کرنے کیلئے ایک ایسے میثاق پر دستخط کریں کہ جس میں وہ تمام نکات من و عن شامل کر لئے جائیں کہ جن کا ذکر ہم نے اوپر کی سطور میں کیا ہے جہاں تک اس ملک کے عام آدمی کا تعلق ہے اس کی آنکھیں اب کھل جانی چاہئیں اب اس کو کھرے اور کھوٹے میں تمیز کرنے کاہنر امید ہے آ گیا ہوگا۔