اس دنیا کے غم

وزیر اعظم پاکستان کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان کا یہ بیان غور طلب ہے کہ کرونا وائرس کا ڈیلٹا ویرینٹ delta variant موسم سرما میں دوبارہ اپنا سر اٹھا سکتا ہے۔اس ضمن میں محکمہ صحت کے متعلقہ ماہرین نے اب تک جب بھی کوئی پیشگوئی کی تو وہ سو فیصد درست ثابت ہوئی لہذا وطن عزیز کے باسیوں کو ڈاکٹر فیصل سلطان کی اس پیشگوئی کو سنجیدہ لینا چاہئے۔دیکھنے میں آیا ہے کہ جونہی ملک میں کورونا وائرس کے کیسز کی شرح میں کمی واقع ہوئی عام پبلک نے ان  ایس او پیز پر عمل درآمد کرنے میں غیر سنجیدگی اور بے احتیاطی کا مظاہرہ کرنا شروع کر دیا کہ جن پر ابھی کچھ مزید عرصے تک سختی سے عمل درآمد کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ حکومت نے اپنے تئیں لاکھ کوشش کی ہے کہ لوگوں کو کورونا ویکسنیشن کی طرف راغب کرے پر قدم قدم پر اسے کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑاہے۔ بالکل اسی طرح کہ جس طرح پولیو کے قطرے پلانے کی مہم میں حکومت آج تک سامنا کر رہی ہے۔ ملک میں اشیائے صرف کی قیمتوں میں دن بدن اضافے سے عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوتی جا رہی ہے ہماری درخواست ہے کہ جب بھی کوئی پاکستان میں مختلف اشیا کی قیمتوں کا عالمی سطح پر قیمتوں کے ساتھ موازانہ کرے تو وہ اس بات کو نہ بھولے کہ ان ممالک میں فی کس سالانہ آمدنی 40 ہزار سے 60 ہزار ڈالر کے درمیان ہے جبکہ وطن عزیز میں فی کس سالانہ آ مدنی 11 سو ڈالر ہے۔وزیر اعظم صاحب نے 120 ارب روپے کے جس امدادی پیکج کا اعلان کیا وہ اپنی جگہ اہم ہے اور اس کو مشکل وقت میں ایک اچھا فیصلہ قراردیا جا سکتا ہے تاہم مستقبل بنیادوں پر ایسے اقدامات کی ضرورت بہر حال رہتی ہے کہ وطن عزیز میں اشیائے خورد نوش کی مصنوعی قلت کا خاتمہ ہو اس کے ساتھ ساتھ مصنوعی مہنگائی کا راستہ بھی روکا جائے اور ایسے لوگوں عناصر کے خلاف موثر کاروائی کی جائے جو اپنے ذاتی مفاد کیلئے دوسرے لوگوں کا جینا مشکل بنا دیتے ہیں۔عارضی بنیادوں پر جس قدر بھی ریلیف کے اقدامات اٹھائے جائیں وہ وقتی مشکلات میں کمی تو لا سکتے ہیں تاہم اس سے اس ملک کے عام آدمی کو وسیع تناظر میں کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ملے گا۔تین سال قبل چینی کی قیمت 3000 روپے فی50کلو گرام تھی جواب 7000روپے ہو چکی ہے حکمرانوں کو کبھی کبھی غیر روایتی اور آؤٹ آف دی باکس out of the box انتظامی اقدامات اٹھانے پڑتے ہیں ہیں کیونکہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے اور بگڑے ہوئے لوگوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ڈنڈے کا استعمال ہی ان کا واحد علاج ہے۔ماضی کے برعکس ذخیرہ اندوزوں کے خلاف زبانی جمع خرچی  کی بجائے جنگی بنیادوں پر ایسی مہم چلانے کی ضرورت ہے کہ اس مرض کا مستقل خاتمہ ہو۔ ایسے لوگوں کو سخت ترین سزائیں سرعام دینا ضروری ہے۔اب تک بہت کم ہی دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی بڑے ذخیراندوز کو نشان عبرت بنایا گیا ہو اور اس کے اس گودام کو سربمہر کیا ہو کہ جس میں اس نے کوئی اشیاے خوردنی کو ذخیرہ کیا ہو اور پھر اس میں ذخیرہ کی گئی اشیا کو برسرعام نیلام کیا  گیاہو۔ بزرگوں سے ہم نے سنا ہے کہ نیا نیا پاکستان بنا تھا اور چوک یادگار پشاور شہر میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ ایک جلسہ عام سے خطاب کر رہے تھے کہ مجمع میں سے کسی نے آواز دی کہ شہر میں چینی کی قلت ہے پولیس کو اچھی طرح پتا ہے کہ کہاں کہاں چینی کے ذخیرہ اندوزوں نے نے اپنے اپنے گوداموں میں چینی چھپا رکھی ہے پر وہ ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کر رہی اس پر پر جوش خطابت میں وزیر اعلی صاحب نے عوام کے مجمع سے کہہ دیا کہ اگر ایسی بات ہے تو آپ بیشک یہ گودام لوٹ لیں اور میں پولیس کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ آپ کے خلاف پرچہ نہیں  کاٹے گی ان کا یہ حکم اپنا کام کر گیا کیونکہ دوسرے دن صوبے بھر میں کئی ایسے گودام عوام نے لوٹ لیے کہ جن میں ذخیرہ اندوزوں نے چینی کو سٹاک کیا ہوا تھا اس کے بعد دیگر ذخیرہ اندوزوں یہ سوچا کہ کہیں ان کے گودام بھی لوٹ نہ لئے جائیں تو وہ اپنی اپنی ذخیرہ کی گئی چینی کو مارکیٹ میں از خود لے آئے کہ جو انہوں نے بلیک مارکیٹنگ کیلئے اپنے گوداموں میں چھپا رکھی تھی۔