جامعات کو صدر مملکت کی نصیحت

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے حال ہی میں پشاور کی سرکاری جامعات کا ناقابل فراموش دورہ کیا جبکہ خاتون اول ڈاکٹر ثمینہ علوی جامعہ پشاور کے کانووکیشن ہال میں بریسٹ کینسر کے چیلنج سے نمٹنے کی کوششوں کے سلسلے میں نارتھ ویسٹ ہسپتال اور پشاور یونیورسٹی کے مشترکہ آگاہی سیمینار سے مخاطب ہوئیں نارتھ ویسٹ ہسپتال نے اس سے ایک ہفتہ قبل بھی جامعہ کے اس ہال میں اس موضوع پر سیمینار کا اہتمام کیا تھا دراصل ان سیمیناروں کیلئے جامعہ پشاور کے انتخاب کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ جناح کالج اور ہوم اکنامکس کالج کی ساری معلمات اور سینئر طالبات کو اکٹھا کرکے نارتھ ویسٹ ہسپتال حیات آباد پہنچانا اور وہاں پر سب کو سنبھالنا قدرے مشکل کام تھا۔ صدر مملکت کا دورہ انجینئرنگ یونیورسٹی اور خیبرمیڈیکل یونیورسٹی اس لحاظ سے بھی ناقابل فراموش ہوا کہ پشاور کی ساری پولیس اور اسکے  افسران اپنے تمام تر سازوسامان جدید اسلحہ اور آلات سے لیس گاڑیوں اور جیمرز سمیت کیمپس میں موجود رہے اور یوں پشاور یونیورسٹی کیمپس کا روڈ نمبر2عرصہ بعد رکشوں‘ پک اینڈ ڈراپ اور ٹیکسی گاڑیوں کے شوروغل‘ تیزرفتاری‘ ٹریفک جام‘ ریکارڈنگ جبکہ بھکاریوں ہتھ ریڑھیوں‘ سکریچنگ ون ویلنگ‘ پریشر ہارن اور پارکنگ سے محفوظ نظر آیا البتہ خیبرمیڈیکل یونیورسٹی کے بارے میں پتہ نہیں چلا کہ وہاں پر صورتحال کیا اور کیسی تھی؟ صدرمملکت نے انجینئرنگ یونیورسٹی کے اساتذہ سے اپنے خطاب میں حکومتی کارکردگی کی تعریف کے ساتھ یہ نصیحت بھی بار بار دہرائی کہ جامعات کو ورچول نظام تعلیم کی طرف جانا چاہئے تاکہ زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا جا سکے موصوف کا کہنا تھا کہ  موجودہ دور آئی ٹی اور زراعت میں آگے بڑھنے کا متقاضی ہے لہٰذا جامعات ان دونوں شعبوں پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں لیکن ایسی ہنر مند افرادی قوت پیدا کریں جس کیلئے قومی اور عالمی مارکیٹ میں کھپت کی گنجائش ہو کیونکہ اس وقت ہماری جامعات جوگریجویٹس قوم کو دے رہی ہیں ان میں محض 30 فیصد کو بین الاقوامی مارکیٹ میں جاب ملتی ہے جبکہ70 فیصد رہ جاتے ہیں انجینئرنگ اور میڈیکل شعبوں کی کارکردگی کی ستائش بھی صدرمملکت کے خطاب کا حصہ تھی تاہم جامعات کی انتظامیہ نے محض والہانہ استقبال پر اکتفا کرتے ہوئے اپنی مالی بدحالی کو صدرمملکت کے سامنے رکھنا مناسب نہیں سمجھا یعنی کس نے بھی یہ نہیں کہا کہ وہ گزشتہ ایک عرصہ سے اعلیٰ تعلیمی بجٹ میں حکومتی کٹوتی اور کورونا کے ہاتھوں تعلیمی بندش اور اپنے ذرائع آمدن ٹھپ ہونے سے کس قدر کٹھن مالی حالت سے دوچار ہیں جب تنخواہیں دیتے ہیں تو پنشن نہیں ہوتی اور جب یہ تینوں ایک حد تک پوری کریں تو پھر الاؤنسز کیلئے کچھ باقی نہیں رہتا طلباء کی تعداد بڑھانا بھی مشکل ہوگیا ہے کیونکہ گزشتہ عشرہ ڈیڑھ عشرہ کے دوران صوبے میں خالصتاً سیاسی بنیاد پر یونیورسٹیوں کے قیام کا سلسلہ چلا ہے وہ دو درجن سے آگے بڑھنے کے باوجود تاحال رکا نہیں اگر تعداد بڑھ بھی جائے تو سنبھالنے کا کیا ہوگا؟ جب کلاس رومز‘ ہاسٹلز اور ٹیچرز کا انتظام ضرورت کے مطابق نہ ہو؟ اگر فیسیں اور چارجز بڑھاتے ہیں تو طلباء نہ صرف سڑکوں پر نکلتے ہیں بلکہ ملک کی سیاست میں احتجاج کے نئے دھرنا طریقے  کو بھی بروئے کار لایا جاتا ہے بہرکیف یہ تلخ حقائق بیان کرنے سے رہ گئے البتہ صدر مملکت کا دورہ اس لحاظ سے بھی ناقابل فراموش رہا کہ یونیورسٹی انتظامیہ اور کیمپس پولیس نے اپنی موجودگی کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے یہ بتانے کی بھی کوشش کی کہ معمول کی حالت میں یونیورسٹی کے تعلیمی ماحول کو بگاڑ سے بچانے کے فریضے کی انجام دہی کا درد سر اپنے ذمے  لیا جائے تو یہ کام بخوبی ہو سکتا ہے۔