سیاسی مفادات کی دنیا

امریکہ نے اس بات کا عندیہ دیاہے کہ وہ طالبان کی حکومت کو شاید تسلیم کر لے عین ممکن ہے اس کالم کے چھپنے تک اس ضمن میں مزید پیش رفت ہو چکی ہو اگر ایسا ہو گیا کہ جس کے ہونے کی بہت بڑی توقع ہے تو یہ یقینا اس بات کا واضح ثبوت ہوگا کہ 2001 میں افغانستان پر فوج کشی کر کے اس وقت کے امریکی صدر بش اور پینٹاگان نے بہت بڑی سیاسی حماقت کی تھی اب بھی کئی سیاسی مبصرین کا یہ گماں ہے کہ امریکہ کا دل نہیں بدلا اس نے صرف پینترا بدلا ہے وہ افغانستان میں اپنی موجودگی کسی نہ کسی شکل میں اس لئے چاہتا ہے کہ وہاں بیٹھ کر وہ چین کے خلاف ریشہ دوانیاں کر سکے پاکستان میں بھی وہ اپنے لئے ملٹری بیس حاصل کرنے کیلئے بھرپور کوشش کر رہا ہے اور افغانستان کو بھی کسی نئے انداز میں اپنے جام میں اتارنے کی کوشش کر رہا ہے۔ چین امریکہ کے اعصاب پر سوارہو چکا ہے اور جس رفتار سے چین اپنی دانشمندانہ پالیسیوں کی وجہ سے روز بروز دنیا بھر میں اپنا اثرورسوخ بڑھا رہا ہے وہ امریکہ کیلئے سوہان روح ہے۔ ادھر نئی دہلی میں پچھلے ہفتے بھارت کی نیشنل سکیورٹی مشاورتی کمیٹی کے تحت جو میٹنگ ہوئی وہ بد مزگی کا شکار اس لئے ہو گئی کہ اس کے اختتام پر بھارت نے جو اعلامیہ جاری کیا اس کے فوراً بعد روس نے اپنے طور ہر ایک علیحدہ بیان جاری کیا جس میں یہ کہا گیا کہ بھارت نے جو اعلامیہ جاری کیا وہ میٹنگ میں کئے گئے فیصلوں کی درست عکاسی نہیں کرتا۔بھارت نے تو یہ میٹنگ افغانستان میں اپنی سیاسی تنہائی ختم کرنے کیلئے منعقد کی تھی پر اسے اس سے کوئی سیاسی فائدہ نہیں ہوا الٹا لینے کے دینے پڑ گئے ہیں۔ کئی سیاسی مبصرین کے مطابق اس میٹنگ میں آ ٹھ ملکوں کے شرکا نے بھارت کو افغانستان کو دہشتگردی سے جوڑنے کی بات کو مسترد کر کے اس کے منہ پر ایک زناٹے دار طمانچہ مارا ہے۔ دنیا میں کئی ممالک نے زبان اور نیشنلزم کے نام پر اپنے اپنے سیاسی گروپ بنا رکھے ہیں ترکی نے بھی ایک ایسا ہی گروپ بنا رکھا ہے کہ جس کا نام ہے ترک کونسل اور اس میں وہ سولہ ممالک شامل ہیں جو ترک حکومت کے مطابق کسی زمانے میں ترکی کا حصہ تھے۔جیسا کہ کرغستان قزاکستان آ ذربایجان ترکمنستان ترکی ازبکستان اور ہنگری وغیرہ بحیرہ اسود پر ان ممالک کا کافی کنٹرول ہے اور اور بحیرہ گیلان کے قریب بھی ترک کونسل کے بعض ممالک واقع ہیں گو کہ اس ترک کونسل کے بحیرہ گیلان میں بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر روس نے ابھی تک برملا اپنی خفگی کا اظہار نہیں کیا پر اندرون خانہ اسے اس بات پر تشویش ضرور ہے کہ بحیرہ اسود اور بحیرہ گیلان کے علاقے میں ترکی کا سیاسی اثرورسوخ کہیں بڑھ نہ جائے۔ بحیرہ گیلان میں روس کبھی بھی یہ نہیں چاہے گا کہ اس کے علاوہ کوئی اور ملک اس میں واقع ملکوں پر سیاسی طور پر حاوی ہو۔یاد رہے کہ ماضی میں روس اور ترکی کی آ پس میں ایک لمبے عرصے تک دیرینہ دشمنی رہی ہے اسی طرح ایران بھی آذربائیجان اور ترکی کے درمیان بڑھتی ہوئی ہم آہنگی اور دوستی پر اندرون خانہ کوئی زیادہ خوش نہیں ہے۔ یاد رہے کہ آ ذربایجان اور آ رمینیا کے درمیان حالیہ سرحدی جھڑپوں میں ایران نے آ زربائیجان کے بجائے آ رمینیا کی سیاسی حمایت کی تھی۔ ترک کونسل کا وجود 2009 میں عمل میں لایا گیا اور اس کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ دنیا کے وہ ممالک کی جہاں ترکی زبان بولی جاتی ہے اور جو کسی زمانے میں ترکی کا حصہ تھے ان کے درمیان زندگی کے مختلف شعبوں میں تعاون کے ذریعہ ترقی کے عمل کو تیز کیا جائے۔ ان گزارشات کا مقصد یہ ہے کہ دنیا میں تقریبا تقریبا ہر جگہ سپر پاورز بشمول مسلم ممالک کے اپنے اپنے علیحدہ مفادات ہیں اور ان زمینی حقائق عالمی سیاست پر پر تبصرہ کرتے وقت کوئی بھی سیاسی تجزیہ کار ان کو نظر انداز نہیں کر سکتا اور آخر میں ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ اس بات کو دوبارہ اپنے قارئین کے گوش گزار کریں کہ کورونا وائرس کا ابھی تک مکمل طور پر صفایا نہیں ہوا ہے اور تازہ ترین اطلاعات کے مطابق یورپ کے بعض ممالک خصوصا جرمنی میں اس وبا نے پھر سر اٹھایا ہے۔ لہٰذا ہم وطنوں سے گزارش ہے کہ وہ ماسک لگانے سے گریز نہ کریں اور حکومت کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ اس کے تمام وزرا ء اور سول سرونٹس ماسک کے بغیر گھروں سے باہر نہ نکلیں۔