داخلوں کی گنجائش بڑھانے کی کوشش

جامعہ پشاور انتظامیہ کے ایک نہایت معتبر اور باوثوق ذریعے کے مطابق اعلیٰ تعلیمی کمیشن کی طرف سے یونیورسٹی کو30 ہزار طلباء کے حساب یا شرح سے گرانٹ ملتی ہے جبکہ طلباء کی تعداد نصف یعنی15ہزار ہے راقم نے تو فی الوقت یہ معلوم کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم تمام یعنی سکولز کالجز انڈرگریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ کو ملا کر 15ہزار بنتی ہے یا صرف بی ایس چار سالہ ڈگری پروگرام میں شامل طلباء اور طالبات کی تعداد15 ہزار ہے؟ مذکورہ ذریعے کے مطابق بی ایس پروگرام کے حالیہ داخلوں میں سات ہزار سے  زائد وہ طلباء داخلوں سے محروم رہ گئے جو میرٹ لسٹ میں نہیں آئے لہٰذا تعداد بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ طلباء کو داخلہ ملنے کیساتھ ساتھ یونیورسٹی کی آمدنی میں بھی اضافہ ہو سکے ان کے مطابق حال ہی میں اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے زیر اہتمام آل پاکستان وائس چانسلرز کی ورچوئل کانفرنس میں معلوم ہوا ہے کہ کراچی‘ لاہور اور بعض دوسرے بڑے شہروں کی ان جامعات میں طلباء کی تعداد جامعہ پشاور کے مقابلے میں دگنی ہے جس کا قیام پشاور یونیورسٹی سے کافی مدت بعد عمل میں لایا گیا ہے یعنی ان کی عمرا بھی 72 برس تک نہیں پہنچی شاید اسی غرض سے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد ادریس خان نے طلباء کی تعداد دگنی کرنے کا ٹاسک خود اپنے ذمے لیتے ہوئے گزشتہ کئی دنوں سے تمام تدریسی شعبہ جات کے دورے کر رہے ہیں موصوف کا عزم ہے کہ پہلے مرحلے میں 20ہزار جبکہ بعدازاں طلباء کی تعداد30 ہزار تک پہنچائی جائے گی جہاں تک دگنی تعداد کیلئے جگہ کی گنجائش‘ اساتذہ کی کمی پوری کرنے اور اضافی کلاسز کے معاوضہ کی ادائیگی جیسے مسائل کا تعلق ہے تو موصوف کا کہنا ہے کہ ان میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں جو حل نہ ہو سکے دوسری طرف اساتذہ کی اکثریت وائس چانسلر کی اس مہم سے اسلئے سوفیصد متفق نظر نہیں آرہی کہ ان کے مطابق پہلے تو30ہزار طلباء سنبھالنے اور بٹھانے اور ساتھ ہی ریشو کے مطابق اساتذہ کا بندوبست کرنے نیز اضافی کلاسز کے معاوضے کی بروقت ادائیگی یقینی بنانے جیسے مسائل کو حل کرنا ہوگا اس میں کوئی شبہ نہیں کہ موجودہ وائس چانسلر جامعہ کیلئے آمدن کے ذرائع پیدا کرنے جبکہ رابطوں اور تعلقات کو بروئے کار لاتے ہوئے یونیورسٹی کو مالی بحران سے نکالنے کی کوششوں میں نہایت ہی سریع الحرکت واقع ہوئے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ بقول موصوف انکے آنے تک یونیورسٹی نہ صرف مختلف مالیاتی اداروں کی769 ملین روپے مقروض تھی بلکہ اپنے ملازمین کو محض بیسک یا بنیادی سکیل کی تنخواہ کی ادائیگی کی ابتر حالت تک پہنچ چکی تھی موصوف کہتے ہیں کہ ٹیم ورک اور صوبائی اور وفاقی حکومت کے مالی تعاون کی بدولت یونیورسٹی قرضوں کی ادائیگی کیساتھ ساتھ مکمل تنخواہوں کی بروقت ادائیگی کے قابل ہوگئی ہے تاہم پنشن کا گھمبیر مسئلہ ابھی حل طلب ہے کیونکہ ماہانہ پانچ کروڑ سے زائد پنشن کی ادائیگی یونیورسٹی کیلئے ایک بہت بڑا بوجھ بن چکی ہے طلباء کی تعداد دگنی کرنے کی کوششیں اور اس سلسلے میں اساتذہ کے خدشات دونوں قابل ستائش اور قابل غور ہیں البتہ جو خدشہ زیادہ غور طلب ہے وہ یہ کہ اگر جامعہ میں طلباء کی تعداد30 ہزار تک پہنچ جائے تو میرے نزدیک اس صورت میں تو پھر یونیورسٹی کیمپس میں بذریعہ سڑک آنا ممکن نہیں ہوگا کیونکہ اسلامیہ کالج کی مثال سب کے سامنے ہے جہاں پر محض بی ایس پروگرام کے اضافے کیساتھ کالج سے یونیورسٹی کی جانب جو قدم اٹھایا گیا اس کے  نتیجے میں جگہ کی کمی اور ٹریفک کے جو مسائل پیدا ہوئے وہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں جبکہ پشاور یونیورسٹی کی حالت یہ ہے کہ وائس چانسلر کے بقول موجودہ نصف تعداد کے ہوتے ہوئے بھی کیمپس کا روڈ نمبر2 ایک پبلک ٹرانسپورٹ اڈے کا منظر پیش کر رہا ہے تو ایسی حالت میں اگر طلباء کی تعداد30  ہزار ہو جائے تو سنبھالنا کس کے ذمے ہوگا؟ موجودہ انتظامیہ یا کہیں سے نئے لوگ آکر ڈسپلن قائم کرینگے؟