ہینگ لگے نہ پھٹکری

ہینگ لگے نہ پھٹکری رنگ بھی چوکھا آ ئے‘ اگر کسی کو زہر میٹھی گولیوں میں ملا کر خاموشی سے کھلا کر بڑی آ سانی سے مارا جا سکتا ہے تو اسے دھماکہ خیز مواد سے کیوں قتل کیا جائے؟ سپر پاورز خصوصا ًامریکہ نے ایک عرصے سے یہ پالیسی اختیار کی ہوئی ہے کہ جس ملک کو وہ تباہ کرنا چاہتا ہے تو وہ سب سے پہلے اس کی معیشت کا تیا پانچہ کرتا ہے اس کو سر کے بال سے لے کر پاؤں کے انگھوٹے تک قرضوں سے جکڑ دیتا ہے۔ وہ مالی لحاظ سے اتنا ادھ مواہو جاتا ہے کہ وہ اپنے پاؤں کے زور پر پھر کھڑا ہونے کی سکت نہیں رکھتا۔امریکہ یہ کام اپنے طفیلی معاشی ادارے آئی ایم ایف سے کمال چالاکی سے کرواتا ہے۔ ہر ملک میں ایسے لوگ رکھے ہیں کہ جو ان مالیاتی اداروں میں کلیدی اہمیت کے عہدوں پر فائز ہوتے ہیں اور پھر یہ ممالک کی پالیسیاں تشکیل دینے لگتے ہیں۔افریقی ممالک ہوں یا پھر مشرق بعید کے یہاں پر ان ممالک کو قرضوں کے بوجھ میں جکڑنے والے اشخاص وہ لوگ تھے یا ہیں کہ جن سب کا خمیر امریکہ کے مالی اداروں میں اٹھا تھا جہاں انہوں نے برسا برس علم معاشیات سے متعلق اداروں میں کام کیا تھا اور بوقت ضرورت پھر امریکہ نے انہیں ان ممالک میں استعمال کیا اور انہی کے ذریعے کئی ممالک کی معاشی طور پر لٹیا ڈبوی یہ سلسلہ ھنوز جاری و ساری ہے۔ ہم محض مفروضوں پر یہ بات نہیں کر رہے۔ گھر کے بھیدی ہی لنکا ڈھاتے ہیں۔ ان باتوں کی تفصیلات ہم کو ان کتابوں سے ملتی ہیں جو انہی افراد نے لکھی ہیں جو کبھی اسی مقصد کیلئے امریکہ نے بھرتی کئے تھے اور جنہوں نے اپنے ضمیر کا بوجھ اتارنے کیلئے اپنی کتابوں میں اپنے معاشی جرائم کا اعتراف کیا ہے۔ اس موضوع پر اگر صرف ایک ہی کتاب پڑھ لی جائے کہ جو جان پرکنس نے لکھی ہے اور جس کا نام ہے confessions of an economic hitman  تو اپ ہمارے اس بیانئے کی تہہ تک پہنچ جائیں گے کہ جوہم نے اوپر کی سطور میں بیان کیا ہے۔ اس سے بڑھ کر افسوس کی بات بھلا اور کیا ہو سکتی ہے کہ کسی بظاہر آ زاد اور خودمختار ملک بین الاقوامی مالیاتی ادارے ہر کام میں ڈکٹیشن دیں اور اس سے بھی زیادہ قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ تیسری دنیا کے زیادہ تر ممالک ان مالیاتی اداروں کے اس چنگل سے نکلنے کیلئے کوئی عملی راستہ نہیں نکال رہے۔ ان سب کو سب سے آ سان کام یہی دکھائی دیتا ہے کہ اپنے اپنے دور حکومت میں اپنا کام چلانے کیلئے قرضوں پر قرضے لیتے جاؤ کل کس نے دیکھا ہے تم بس اقتدار میں اپنا وقت کسی نہ کسی طریقے سے پورا کرو۔کیا اس بات سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر لیں کہ معاشی میدان میں تیسری دنیا قحط الرجال کا شکار ہے؟ اس سے بڑھ کر بدقسمتی بھلا اور کیا ہو سکتی ہے کہ اقتصادی ماہرین کے مطابق تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک ہر سال اپنی آ مدنی کا بڑا حصہ قرضوں کی ادائیگی پر خرچ کر رہے ہیں۔